بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نفع کی شرح متعین کیے بغیر شرکت اور اس میں نقصان ہو تو تاوان کا حکم


سوال

9  سال قبل  میرا کمپیوٹر کا کاروبار تھا جو اچھا چل رہا تھا، میرے خالو نے مجھے آفر کی کہ وہ   میرے کاروبار کے لیے 6 لاکھ روپے دینا چاہتے ہیں مناسب منافع کے عوض۔میں  نے  نفع طے کیے بغیر پیسے لے کر کاروبار میں لگا دیے  مہینے کے آخر میں جو منافع ہوتا، اس میں سے ان کو بھی دیتا تھا جو فکس نہیں تھا۔ کچھ ماہ بعد میرا دبئی جانے  کا اتفاق ہوا، میں نے خالو سے مزید پیسوں کے لیے کہا، انہوں نے مزید 6 لاکھ دیے، اس سے میں نے دبئی سے خریداری کی اور 13 ، 14 مہینے معاملہ چلتا رہا، اس دوران کام میں نقصان ہوتے ہوئے بھی رشتہ داری کی وجہ سے ان کو نفع دیتا رہا، کبھی کم کبھی زیادہ جو تقریباً ڈھائی لاکھ  بنا۔ پھر  اچانک میری دکان میں چوری ہوئی جس میں سب سامان  17 لیپ ٹاپ سمیت  چوری ہوگئے، اور مجھے 15 لاکھ سے زیادہ کا نقصان ہوا جس پر میں نے دکان ختم کرکے صرف کمپنی کا کام شروع کردیا، جو میں پہلے بھی کچھ کررہا تھا ، غرض یہ کہ  مجھے آہستہ آہستہ وہ کام بھی ختم کرنا پڑا اور میں روڈ پر آگیا اور میں  نے اپنا پلاٹ بیچ کر کر لوگوں کے پیسے دیے، جس میں سے ڈھائی لاکھ خالو کو بھی دیے، جب سے لے کر اب تک میں کاروبار دوبارہ نہیں کرپایا۔ بہت تجربے کیے لیکن کامیابی نہیں ہوئی، اب میرے خالو کے حالات بھی اچھے نہیں، جس کی وجہ سے وہ تقاضا کررہے ہیں۔ اب میری نیت ان کے پیسے واپس کرنی کی ہے، لیکن وہ مزید انتظار نہیں کر نا چاہ رہے، راہ نمائی فرمائیں کہ کیا اب میں  ان کادین دار ہوں؟

جواب

آپ نے جب خالو سے اپنے کاروبار کے لیے پیسے  لیے اور اس میں منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی، تو آپ کا خالو  کا سرمایہ کاروبار میں لگانے کا  عقد ہی درست نہیں ہوا ۔اس لیے کہ کسی کے کاروبار میں سرمایہ لگاتے ہوئے نفع کی شرح متعین کرنا لازم ہے۔

  نیز  دوسری بار آپ نے جو سرمایہ لیا اور اس میں بھی نفع کی شرح متعین نہیں کی، تو وہ عقد بھی فاسد ہوا۔ ایسے عقدِ فاسد کا حکم یہ ہے کہ اس میں  نفع کی تقسیم ہر ایک کے سرمایہ کے حصص کے اعتبار سے ہوتی ہے؛ اس لیے  آپ کے سرمایہ کے اعتبار سے جو شرح آپ کے خالو کے سرمایہ کی بنتی ہے  نفع میں بھی اتنا ہی ان کا حصہ ہے ۔ اس  عرصہ میں آپ جس قدر رقم نفع کے طور پر  ان کو دے چکے ہیں اس کا حساب  اس  شرح میں سے کرلیں۔ مثلاً: آپ کے خالو کا سرمایہ 12 لاکھ ہوا، اور آپ کا سرمایہ بھی 12 لاکھ ہی ہو تو دونوں کی نفع  میں شراکت بھی آدھی آدھی ہوگی۔اس حساب سے جتنا نفع اس عرصہ میں ہوا اس کا نصف ان کا حق ہے۔

جہاں تک آپ کے سرمایہ کے چوری ہوجانے کا تعلق ہے تو  اگر اس  چوری میں  آپ کی غفلت اور حفاظت میں کوتا ہی شامل نہیں تو آپ  پراس سرمایہ کاان کو ادا کرنا  واجب نہیں  اس  لیے  کہ آپ کے ہاتھ میں ان کا سرمایہ امانت تھا، اس کا ضمان آپ پر نہیں، الا یہ کہ آ پ کی جانب سے حفاظت میں کوئی کوتا ہی کی گئی ہو  تو اس کی ادائیگی آپ کے ذمہ ہوگی،  اور جتنا سرمایہ بچا ہو  اس میں سے ان کا حصہ ادا کرنا واجب ہوگا۔

’’ رد المحتار ‘‘ :

"فما کان من ربح فهو بینهما علی قدر رؤوس أموالهما" . (۶/۳۷۰ ، مطلب شرکة العقد)

"ومن شروطها: کون نصیب المضارب من الربح حتی لو شرط له من رأس المال، أو منه ومن الربح فسدت. وفي الجلالیة: کل شرط یوجب جهالة في الربح، أو یقطع الشرکة فیه یفسدها. (قوله: في الربح) کما إذا شرط له نصف الربح، أو ثلثه". (الدر المختار مع ردالمحتار، کتاب المضاربة، ۵/۶۴۸) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں