بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کریڈٹ کارڈ سے خریداری کی مگر بینک نے رقم کی ادائیگی میرے اکاؤنٹ میں شامل نہیں کی


سوال

میں نے گزشتہ دنوں chase departmental store کریڈٹ کارڈ سے خریداری کی تھی، انہوں  نے خریداری کی رسید میرے دستخط کے ساتھ اپنے پاس رکھ لی، مگر انہوں نے اب تک بینک سے کلیم نہیں کی، جس کی وجہ سے بینک نے بھی اب تک اس کو میرے بل میں شامل نہیں کیا ہے، میں نے chase جاکر بھی بولا ہے کہ آپ لوگوں نے فلاں تاریخ کی اتنی اماؤنٹ کی رسید اب تک کلیم نہیں کی ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ ہمارے حساب میں کچھ کمی نہیں ہے، ایسی صورتِ حال میں میرے لیے  کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ سامان کی قیمت بینک نے آپ سے وصول نہیں کی ہے، اور مذکورہ اسٹور کے حساب میں کسی قسم کی کمی بھی نہیں پائی جارہی ہے، تو اس صورت میں آپ اپنے بینک سے رابطہ کریں اورکارڈ استعمال کرنے کی رسید دے کر بینک سے  تحقیق کروالیں، غلطی سامنے آنے کے بعد مذکورہ رقم بینک کو ادا کرلیں، اور اگر بینک کے ریکارڈ میں غلطی ثابت نہ ہو، بلکہ مذکورہ اسٹور نے اب تک بینک سے کلیم نہ کیا ہو تو مذکروہ رقم مذکورہ اسٹور کو جا کر ادا کردیں، اور اسٹور کو پابند کردیں کہ مستقبل میں اس رسید کی کے عوض رقم بینک سے وہ کلیم نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ کریڈٹ کارڈ(Credit  Card)کااستعمال اوراس کے ذریعہ خریدوفروخت درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ کسی  معاملے کے حلال وحرام ہونے  کی بنیاد درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا۔شریعت میں  جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی حرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ سودی ہونے  کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال نا جائز ہے ، اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے؛ اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے؛ لہٰذا آپ جلد از جلد کریڈٹ کارڈ کے سودی معاملے سے جان خلاصی کی کوشش کیجیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں