بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر دکان لے کر آگے پگڑی یا کرایہ پر دینا


سوال

 ایک شخص دکان کرائے پر لیتا ہے اور مہینے کا 10000 کرایہ دیتا ہے، ایک دوسرا شخص آکر کرایہ دار کو کہتا ہے کہ یہ دکان مجھے دے دو میں آپ کو 5 لاکھ روپے دیتا ہوں، آپ یہ دکان میرے حوالے کر دو اس کو پگڑی کہتے ہیں، ایسا کرنا کیسا ہے؟

جواب

پگڑی کا لین دین ہی ناجائز ہے،خواہ مالک خود کرے یا کرایہ دار، لہذا کرایہ دار کے لیےمذکورہ کرایہ کی دکان کسی  دوسرے کو پگڑی پر دینا جائز نہیں ہے۔

باقی اگر کرایہ دار کسی دوسرے شخص کو آگے کرایہ پر دیتا ہے تو اس کے لیے دو شرطیں ہیں:

(1) وہ کسی ایسے شخص کو دکان کرایہ پر نہیں دے سکتا جس کے کام سے دکان میں نقصان ہو۔

(2) دکان کا کرایہ، اصل کرایہ سے زیادہ نہ لے، ورنہ زیادتی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی۔

ہاں دو صورتوں میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی آگے کرایہ پر دے سکتا ہے :

(1) دوسرا کرایہ پہلے کی جنس میں سے نہ ہو، یعنی پہلے کرایہ روپے میں ہو تو یہ آگے پیسے کے بجائے کسی اور چیز پر کرایہ مقرر کرے۔

(2) کرایہ دار نے اس کرایہ کی دکان میں کچھ اضافی کام (مثلاً رنگ،  ٹائئلز، یا اس میں کوئی اضافہ یادیگر تعمیراتی کام) کرایا ہو، تو ایسی صورت میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 27):
"(تصح) (إجارة حانوت) أي دكان ودار بلا بيان ما يعمل فيها) لصرفه للمتعارف (و) بلا بيان (من يسكنها) فله أن يسكنها غيره بإجارة وغيرها كما سيجيء (وله أن يعمل فيهما) أي الحانوت والدار (كل ما أراد) فيتد ويربط دوابه ويكسر حطبه ويستنجي بجداره ويتخذ بالوعة إن لم تضر ويطحن برحى اليد وإن به ضر به يفتى قنية (غير أنه لا يسكن) بالبناء للفاعل أو المفعول (حدادا أو قصارا أو طحانا من غير رضا المالك أو اشتراطه) ذلك (في) عقد (الإجارة) ؛ لأنه يوهن البناء فيتوقف على الرضا.
(وإن اختلفا في الاشتراط فالقول للمؤجر) كما لو أنكر أصل العقد (وإن أقاما البينة فالبينة بينة المستأجر) لإثباتها الزيادة خلاصة.

وفيها استأجر للقصارة فله الحدادة إن اتحد ضررهما، ولو فعل ما ليس له لزمه الأجر، وإن انهدم به البناء ضمنه ولا أجر؛ لأنهما لا يجتمعان. (وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل  بطل التقييد؛ لأنه غير مفيد، بخلاف ما يختلف به كما سيجيء، ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئاً.

(قوله: بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله: أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط والكنس ليس بإصلاح وإن كرى النهر قال الخصاف تطيب وقال أبو علي النسفي: أصحابنا مترددون وبرفع التراب لاتطيب وإن تيسرت الزراعة ولو استأجر بيتين صفقة واحدة وزاد في أحدهما يؤجرهما بأكثر ولو صفقتين فلا خلاصة ملخصاً". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں