بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرائے کے مکان، سولہ لاکھ مالیت کے پلاٹ اور مال تجارت پر زکاۃ


سوال

میں سعودی عرب میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہوں، میرے تین بچے ہیں، پاکستان میں میرا ایک مکان ہے جو میں نے کرائے پر دیا ہوا ہے، کرایہ اٹھارہ ہزار (۱۸۰۰۰ ) روپے ہے، ان پیسوں سے میں اپنی والدہ کو چھ ہزار (۶۰۰۰ ) روپے خرچہ دیتا ہوں۔دوسرا میرے پاس ایک پلاٹ ہے جو میں نے ایک سال پہلے خریدا تھا اس کی قیمت سولہ لاکھ (۱۶۰۰،۰۰۰ ) روپے ہے، جو کہ ویران پڑا ہوا ہے۔ تیسرا یہ کہ ایک آدمی کے ساتھ میں بزنس کرتا ہوں، جو رقم بزنس ( کاروبار ) میں میں نے لگائی ہے وہ چار لاکھ (۴۰۰،۰۰۰ ) ہے، اس سے اب تک ایک سال میں تیس ہزار (۳۰،۰۰۰ ) روپے کا فائدہ ہو چکا ہے۔ کیوں کہ میں سعودی عرب میں رہتا ہوں اس لیے مجھے دس ہزار (۱۰،۰۰۰ ) ریال ٹیکس دینا پڑتا ہے جو کہ تقریباً تین لاکھ (۳۰۰،۰۰۰ ) پاکستانی روپے بنتے ہیں، میرے بچے بھی اسکول جاتے ہیں، جو بھی پیسے بچتے ہیں وہ ٹیکس کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا مجھے زکاۃ دینا ہوگی؟ اگر دینی ہے تو کتنی دینا ہوگی؟ تفصیل آپ کے سامنے ہے۔

جواب

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کی رو سے آپ شریعت کی نگاہ میں صاحبِ نصاب (غنی، مالدار ) ہیں، اس لیے آپ پر زکاۃ ادا کرنا فرض ہے، باقی رہی یہ بات کہ کتنی ادا کرنی ہوگی تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو چار لاکھ (۴۰۰،۰۰۰ ) روپے آپ نے کاروبار میں لگائے ہوئے ہیں ، زکاۃ کا سال پور اہونے پر ان کی زکاۃ دس ہزار روپے ادا کرنا آپ پر لازم ہے۔ مذکورہ رقم سے حاصل ہونے والے نفع اور مکان کے کرائے کا حکم آگے آرہاہے۔

اس کے علاوہ جو سولہ لاکھ کی مالیت کا پلاٹ آپ کی ملکیت میں ہے اگر وہ پلاٹ آپ نے تجارت کی نیت سے خریدا تھا یعنی  خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ جب اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو نفع پر بیچ دوں گا اور اب تک یہی نیت ہے تو  زکاۃ کا سال پورا ہونے پر اس پلاٹ کی اس وقت کی بازاری قیمت کے اعتبار سے بطورِ زکاۃ اڑھائی فی صد ادا کرنا   آپ پر لازم ہوگا، لیکن اگر وہ پلاٹ تجارت کی نیت سے نہیں خریدا تھا، بلکہ کبھی رہائش کی نیت تھی یا کوئی نیت نہ تھی تو اس پلاٹ پر زکاۃ لازم نہ ہوگی۔

باقی مکان کے کرائے اور کاروبار کے نفع کی مد میں جو پیسے آتے ہیں ان پر سال گزرنے کے بعد اگر آپ کے اور گھر والوں کے تمام اخراجات پورے ہونے کے بعد اس میں سے کچھ پیسے بچ جائیں تو جتنے پیسے بچے ہوں ان کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد ) زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا، لیکن اگر اخراجات پورے کرنے کے بعد زکاۃ کا سال پورا ہونے پر ان پیسوں میں سے کچھ بھی نہ بچے تو ان پیسوں پر زکاۃ نہیں آئے گی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں