بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کتے کے پالنے اور خرید و فروخت کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام بارے اس مسئلے کے کہ :

1۔ کتّے کی حیثیتِ نجاست شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں کیا ہے؟ نیز اس کے ثبوت میں پیش کی جانے والی روایات و آثار کی سندی حیثیت کیا ہے؟ 

2۔ دوسرے یہ کہ کتّے کو پالنے کے جواز اور عدمِ جواز کا کیا حکم ہے؟ اور اس کے دلائل میں پیش کیے جانے والے آثار اور روایت کی سندی حیثیت کیا ہے؟

3۔ تیسرے یہ کہ کتّے کے فوائد کے بارے میں وارد روایات کی کیا حیثیت ہے؟ نیز اصحابِ کہف کے واقعے کے ذیل میں ان کے کتے کا جس پیرائے میں بیان ہے، کیا وہ کتّے کی فضیلت پر دال ہے؟

4۔ چوتھے یہ کہ کتّے کی تجارت کرنا کیسا ہے ؟  کیا شکاری کتے اور عام گھریلو پالتو کتّے کی تجارت کا حکم یکساں ہے؟ اور اگر تجارت جائز ہے تو کیا تجارت ہی کی غرض سے کتّے کو گھر میں رکھنا اور پالنا جائز ہے؟ نیز تجارت کی حلّت یا حرمت کی روایات کی سندی حیثیت کیا ہے؟

5۔ پانچویں یہ کہ ذیلی مصادرِ فقہیہ کی روشنی میں عام گھریلو پالتو کتّے(نہ کہ شکاری) کو پالنے اور گھر میں رکھنے کے جواز کی کیا گنجائش ہے؟  حرمت کی صورت میں کیا مغربی معاشروں میں بھی کتّے کےپالنے کا حکم وہی ہے جو مسلم معاشروں میں ہے جب کہ مغربی معاشروں میں کتّے کا پالنا عموم میں پایا جاتا ہے؟

6۔ چھٹے یہ کہ ماہرینِ نفسیات ڈپریشن اور ایسی دیگر نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے کتّے کا پالنا تجویز کرتے ہیں؛ کیوں کہ ان کا مشاہدہ اور تجربہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ایسی بیماریوں کے شکا ر مریض کتوں سے جلد مانوس ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بیماری میں افاقہ ہوجاتا ہے۔شرعی نقطہ نظر سے کتّے کا اس طور پر(یعنی بیماری کے علاج کے لیے) پالنا جائز ہے یا نا جائز؟ اور جواز یا عدمِ جواز کے کیا دلائل ہیں؟

جواب

1۔احادیثِ مبارکہ میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی برتن میں کتا منہ مار دے تو اس  کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ جس برتن میں کتا منہ مار دے اس کو بہا دیا جائے اس کے بعد اس کو سات مرتبہ دھو لیا جائے۔ اس کے علاوہ کتے کے جھوٹے سے متعلق دیگر روایات بھی ہیں جن سے کتے کی نجاست ثابت ہوتی ہے۔  ان احادیث کی بنا پر فقہاءِ احناف نے کتے کو نجس قرار دیا ہے، لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ صحیح قول کے مطابق کتا  نجس ہے، "نجس العین" نہیں ہے؛ لہذا اس کی جلد وغیرہ بھی پاک ہو سکتی ہے اور اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔اور جن روایات میں کتے کی نجاست کا ذکر ہے ان کی سند صحیح ہونے کی وجہ سے قابلِ اعتماد ہیں۔

احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ  بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا    خیر  و برکت سے محرومی کا باعث ہے ؛ اس لیے کتوں کے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔  البتہ  اگر کتے کو  جانوروں  اور  کھیتی کی حفاظت کے لیے   یا  شکار کے لیے  پالا جائے تو اس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔

الفتاوى الهندية (5/ 361):

"وفي الأجناس: لا ينبغي أن يتخذ كلباً إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم".

لہذا شوقیہ کتے کو پالنا جائز نہیں ہے، حفاطت یا شکار کی نیت سے پالنا درست ہے۔

3۔  جن احادیث میں شکار یا حفاظت کی غرض سے کتے پالنے کی اجازت دی گئی ہے وہ بخاری شریف کی روایت ہے، اور بخاری شریف کا اصح الکتب ہونا کسی ذی علم سے مخفی نہیں؛ لہذا اس کی روایات بھی صحیح ہیں۔ نیز سورۃ المائدہ کی آیت 4 سے بھی شکاری کتے پالنے کا جواز معلوم ہوتاہے۔

اصحابِ کہف کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاں ان کے کتے کا ذکر آیاہے وہاں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ اُس شریعت میں کتے پالنے کی اجازت ہو گی؛ اس لیے انہوں نے کتا ساتھ لیا ہو گا  یا کسی کی بکریوں کی حفاظت کے لیے تھا۔ اور فرعی احکام میں ایسا ہوتا رہتاہے کہ مختلف شریعتوں میں فروعی احکام مختلف دیے گئے۔ بہرحال اصحابِ کہف کے واقعہ سے کتے کو پالنے کے جواز پر استدلال کرنا درست نہ ہو گا، اسی طرح مفسرینِ کرام نے جہاں اصحابِ کہف کا ذکر کیا ہے تو وہاں اس بات کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اصحابِ کہف کا کتا صلحاء کے ساتھ رہا اس کی برکت سے اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس کا ذکر فرما دیا، یہ اس کتے کی جزوی فضیلت تھی، اصحابِ کہف کے کتے  سے مطلقاً  کتے کی فضیلت پر استدلال کرنا درست نہیں۔

4۔ فقہاءِ  احناف نے شکار وغیرہ کے لیے کتے کی تجارت سے متعلق یہ صراحت فرمائی ہے کہ اس کی خرید و فروخت جائز ہے جب کہ وہ  کتا معلم ہو  (سدھایا ہواہو) یعنی شکاری ہو  یا حفاظت کے لیے ہو، لیکن اگر اس پر  یہ اعتراض کیا جا ئے  کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی ثمن سے منع فرمایا ہے تو کیسے اس کی بیع جائز ہو گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ابتداءِ اسلام کی بات ہے جب کتے سے کسی طرح انتفاع جائز نہیں تھا، پھر جب کتے سے انتفاع کو جائز قرار دیا گیا تو  ان خاص صورتوں میں اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہوگئی۔احناف فرماتے ہیں کہ ابتداءً کتے سے کسی قسم کا انتفاع جائز نہ تھا پھر تخصیص آئی اور جب اس سے انتفاع جائز قرار دیا گیا تو اس کی خرید و فروخت بھی جائز قرار دی گئی، اسی وجہ سے صرف  قابلِ انتفاع کتے ہی کی  خرید و فروخت کی اجازت دی گئی ہے،  اس کے علاوہ مطلقاً کتے کی بیع کی اجازت نہیں،  ذیل کی فقہی عبارت میں اسی بات کی صراحت  ملتی ہے، ملاحظہ فرمائیے:

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 69):

"بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور".

کتے کی تجارت کے جواز  کی صراحت کسی حدیث میں نہیں ہے، فقہاء نے اس کی صراحت فرمائی ہے، خلاصہ یہ کہ جس کتے سے انتفاع جائز ہے اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے، اور جس کتے سے انتفاع جائز نہیں اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں۔

5۔ بلا ضرورت کتے کو پالنا جائز نہیں اور فرشتوں کی آمد کے لیے رکاوٹ بھی ہیں،  مغربی معاشرہ کے غیر مسلمین شریعتِ محمدی کی جزئیات کے مکلف نہیں ہیں؛ اس لیے یہ احکامات ان کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔

6۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس گھر میں فرشتے نہیں آتے جس گھر میں کتے ہوں یا تصاویر ہوں؛ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا رحمت کے فرشتوں سے محرومی کا موجب ہے؛ اس لیے اس سے جس قدر ہو سکے احتراز کرنا ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں