بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کانفرنس کال پر نکاح کا حکم


سوال

میرا موبائل پر نکاح ہوا ہے، مجھے کسی مولانا صاحب نے کہا تھا کہ موبائل پر نکاح ہوجاتا ہے، موبائل پر کانفرنس کال ملائی اور اس کی طرف سے ایک لڑکی گواہ تھی اور میری طرف سے میرا دوست گواہ تھا،اور جیسے مولانا صاحب کہتے گئے ویسے میرے دوست نے کہا کہ اللہ کا نام لے کر اللہ کو حاضر ناظر جان کر اپنا نام اور والد کا نام لیا، ادھر سے اس نے بھی اپنا اور اپنے والد کا نام لیا اور ’’قبول ہے‘‘ تین بار کہہ دیا، کیا ایسے نکاح ہوتا ہے یا نہیں؟ براہ مہربانی اس بارے میں میری مدد کریں کہ شرعی طور پر میرا یہ نکاح درست ہوگیا یا نہیں؟ کیا مجھے دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کا نکاح نہیں ہوا ہے؛ کیوں کہ ٹیلی فون پر نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے چاہے کانفرنس کال ہو یا ویڈیو کال ہو، اس لیے  کہ نکاح ایجاب و قبول سے منعقد ہوتا ہے اور ایجاب و قبول کے درست و معتبر ہونے کے لیے اتحادِ مجلس (مجلس کا ایک ہونا) شرط ہے، جو کہ ٹیلی فون پر نکاح کی صورت میں نہیں پائی جارہی، کیوں کہ ایجاب کرنے والا کہیں اور ہوتا ہے اور قبول کرنے والا کہیں اور ۔ نیز یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ نکاح کے درست ہونے کے لیے دو مرد گواہوں یا ایک مرد اور دوعورتوں کا موجود ہونا بھی شرط ہے، اگر نکاح میں ایک مرد اور ایک عورت گواہ بنے تو وہ نکاح درست نہیں ہوگا۔

البتہ ٹیلی فون پر نکاح کے جواز کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق فون پر کسی ایسے آدمی کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل دو گواہوں(یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریق اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحاد مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 14):

"ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين.

 (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد".

الفتاوى الهندية (1/ 269):

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231):

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم  أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم  أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم  عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 21):

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين".

الفتاوى الهندية (1/ 267):

"ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع، ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية. ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان." فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں