بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاموں کی بلا وجہ تشہیر سے اجتناب کرنا چاہیے


سوال

لوگ کہتے ہیں کہ اپنا کام چھپ کر کرنا چاہیے، کسی کو بتانا نہیں چاہیے، ورنہ کام رک جاتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ مشورہ کرنا چاہیے،  اس حوالے سے اسلام کیا کہتا ہے؟

جواب

آپ کے سوال کے دو الگ الگ پہلو ہیں، ایک ہے  راز داری اور نیک مقاصد کے ساتھ اپنے امور انجام دینا اور دوسرا ہے مشورہ کرنا۔ 

اسلاف کا طریقہ یہ رہا ہے کہ بلاوجہ اپنے معاملات سب کے سامنے آشکارا نہیں کیا کرتے تھے، آج کے اس پر فتن دور میں اسی میں خیر ہے کہ جب کسی کام کے سلسلہ میں یقین نہ ہوجائے اس کو مخفی ہی رکھنا چاہیے، اور ایسا کرنا رسولِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے، نیز حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنا خواب بھائیوں کو نہ سنانے کی تلقین فرمائی تھی، اس سے بھی اپنے کام آشکارہ نہ کرنے کی تعلیم ملتی ہے۔

جہاں تک دوسری بات (مشورہ کرنے) کا تعلق ہے، تو قرآنِ پاک میں بھی  مشورہ کرنے کا حکم ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی ہمیں مشورہ کا حکم دیا ہے اور اس کے آداب بھی بتائے ہیں، ارشاد ہے: ’’ماخاب من استخار، وماندم من استشار‘‘. یعنی جس نے استخارہ کیا وہ  نامراد نہیں ہوگا، اور جس نے مشورہ کیا وہ پشیمان نہیں ہوگا۔

مشورے کے حوالے سے ہدایت یہ ہے کہ مخلص، امانت دار اور اہلِ تجربہ سے مشورہ کرنا چاہیے، جو مخلصانہ مشورہ دینے کے ساتھ امانت کی اہمیت سمجھتے ہوئے دوسرے کا راز رکھ سکیں۔ لہٰذا ہر کس و ناکس سے مشورہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اس کی بنیادی  وجہ  حدیثِ مبارک کے مطابق حسد کا پیدا ہوجاناہے، نیز بے وقوف یا غیر امین سے مشورہ کرنے میں حاسدین تک خبر پہنچنے میں بھی نقصان اور حسد کا اندیشہ رہتاہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی جائز اور اہم کام کرنا ہو تو اولاً مخلص، ایمان دار اور تجربہ کار کسی بڑے سے مشورہ کرلیا جائے، اس کے بعد رازداری رکھتے ہوئے کام کرلیا جائے، اپنے معاملات پوشیدہ رکھنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ کسی ایک انسان سے بھی اس کا ذکر نہ کیا جائے۔

{قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ} (يوسف: ٥)

ومن هذا يؤخذ الأمر بكتمان النعمة حتى توجد وتظهر ، كما ورد في حديث : " استعينوا على قضاء الحوائج بكتمانها ، فإن كل ذي نعمة محسود ." ( تفسير ابن كثير، سورة يوسف: ٥) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201716

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں