بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر ملک میں کرسمس کے موقع پر کمپنی سے ہدیہ لینا


سوال

 ہم ایک برٹش کمپنی   میں ملازمت کرتےہیں اور اکثر ملک سے باہر ہوتے ہیں، یہاں پر اکثریت چوں کہ عیسائیوں کی ہے اورہم مسلمان بہت تھوڑے ہیں تو جب ہماری عید وغیرہ کا موقع آتا ہے اور ہم عید مناتے ہیں تو یہ عیسائی وغیرہ باقاعدہ اس میں شرکت کرتے ہیں اور ہمیں مبارک باد دیتے ہیں اور جب ان کے مذہبی دن کرسمس کا موقع آتا ہے تو ہمیں چوں کہ جائز نہیں ہے اس لیے  ہم شرکت نہیں کرتے، لیکن اس موقع پر کمپنی  کی طرف سے سارا عملہ جو ہے جو تقریبا 1000 ,1100 ہوتا ہے ان کے لیے کرسمس گفٹ  ہوتا ہے جو سارے عملہ کو دیتے ہیں تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس سے بھی بچیں اور نہ لیں، لیکن ہمارا جو  کمپیوٹرائز  کارڈ ہوتا وہ چوں کہ کلک کرکے وہ گفٹ ملتا ہے اور اگر کوئی نہ لے تو ان کو پتا چلتا ہے. اور بار بار بلاتے ہیں کہ آپ کیوں نہیں لیتے تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ وہ مائنڈ بھی نہ کریں، لہذا اس صورت میں میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ 

جواب

اگر کفار کے تہواروں کی تعظیم دل میں نہ ہو تو ایسے مواقع پر ان کی طرف سے گفٹ کی گئی چیزیں لینا اگرچہ جائز ہے، لیکن تشبہ کی بنا پر  نہ لینے میں ہی بہتری ہے، البتہ اگر کسی مصلحت کی بنا پر لے لیا جائے جیساکہ آپ نے ذکر کیا تو اس صورت میں اس کےاستعمال  میں حرج نہیں۔ فتاویٰ شامی میں ہے:

 ’’ولو أهدی لمسلم ولم یرد تعظیم الیوم بل جری علی عادة الناس لایکفر وینبغي أن یفعله قبله أو بعده نفیًا للشبهة‘‘.(شامی،ج:۶، ص:۷۵۴،ط:سعید)

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ہے:

"سوال: کرسمس کے موقع پر ۲۵ دسمبر سے ایک دو دن قبل ہرسال دفتری اوقات میں عیسائی ملازمین کرسمس پارٹی کا بندوبست کرتے ہیں، جس میں ہم مسلمان لوگوں کو بھی اخلاقاً کھانے، کیک وغیرہ کھانا پڑتے ہیں، کیا مسلمان ملازمین کے لیے کرسمس پارٹی کے یہ کھانے وغیرہ کھانا صحیح ہے؟ جواب:جائز ہے۔" (ج:۲، ص:۱۳۱،ط:لدھیانوی)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے: ’’سوال: اگر کسی مسلمان کے رشتہ دار ہندو کے گاؤں میں رہتے ہوں اور ہندو کے تہوار ہولی دیوالی وغیرہ پکوان، پوری، کچوری وغیرہ پکاتے ہیں، ان کا کھانا ہم لوگوں کو جائز ہے یا نہیں؟ جواب:جوکھانا کچوری وغیرہ ہندو کسی اپنے ملنے والے مسلمان کو دیں اس کا نہ لینا بہتر ہے، لیکن اگر کسی مصلحت سے لے لیا تو شرعاً اس کھانے کو حرام نہ کہا جائے گا۔ (ج:۱۸،ص:۳۴، ط:فاروقیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200705

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں