بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں لگی ہوئی رقم والدہ کا دو بیٹوں کو ہبہ کرنا


سوال

 میری والدہ نے میرے کاروبار میں کچھ رقم لگائی تھی،  انتقال سے دو سال پہلے صحت کے زمانے میں انہوں نے مجھے اور میرے ایک بڑے بھائی کو بلا کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو اس رقم کا مالک بنادیا ہے اور تم دونوں آج کے بعد اس کے مالک ہو اور الحمداللہ والدہ اس وقت صحت مند تن درست اور چلتی پھرتی تھیں اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ تم دونوں اس رقم سے مل کر کاروبار کرتے رہنا۔

مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ جس رقم کا انہوں نے ہمیں اپنی زندگی میں مالک بنادیا تھا وہ رقم ترکہ میں شامل ہوگی یا نہیں؟ اور دوسرے ورثاء کا اس میں حق ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ نے سائل کے کاروبار میں رقم لگائی اور انتقال سے دو سال قبل مرحومہ والدہ نے سائل اور اس کے بڑے بھائی کو کہا کہ میری جانب سے لگائی گئی رقم کے مالک اب تم دونوں ہو ، تو اگر وہ رقم دونوں بھائیوں نے والدہ  کی زندگی میں تقسیم کرکے اپنے اپنے حصے پر قبضہ کرلیا تھا تو یہ ہبہ درست ہوگیا، اور دونوں اپنے اپنے حصے کے مالک بن گئے، اب یہ رقم والدہ مرحومہ کے ترکے میں شامل نہیں ہوگی۔

اور اگر  والدہ کی زندگی میں یہ رقم تقسیم نہیں کی تھی، بلکہ بدستور کاروبار میں لگی ہوئی تھی، تو   چوں کہ والدہ نے رقم کو تقسیم کے بغیر دونوں کو مالک بنایا تھا تو یہ ہبہ مشاع کے حکم میں ہے، اور ایسی چیز جو قابلِ تقسیم ہو اس کو تقسیم کیے بغیر مشترکہ طور پر اس کا ہبہ کرنا درست نہیں ہوتا، اس لیے  سائل اور اس کے بڑے بھائی اس رقم کے مالک نہیں بنے تھے؛ لہذا یہ رقم والدہ مرحومہ کی ملکیت رہی،  اور  اب یہ رقم مرحومہ والدہ کا ترکہ شمار ہوگا اور سب ورثاء کے درمیان شرعی حصص کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضاً غير مشاع مميزاً غير مشغول)". (کتاب الہبۃ: ۵/ ۶۸۸، ط: سعید)

تنویر الابصار میں ہے:

"وتتم الهبة بالقبض الکامل ولو الموهوب شاغلاً لملک الواهب". (کتاب الہبۃ: ۵/ ۶۹۰، ۶۹۲ ، ط: سعید)

وفیہ الضا:

"(تملیک العین مجاناً) أي بلاعوض لا أن عدم العوض شرط فیه". (۵/ ۶۸۷، ط: سعید)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"لایثبت الملک للموهوب له إلا بالقبض وهو المختار، هکذا في فصول العمادیة". (كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز: ۴/ ۳۷۸، ط: رشیدیة)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 692)
"(ولو سلمه شائعاً لايملكه فلاينفذ تصرفه فيه) فيضمنه وينفذ تصرف الواهب، درر.
(قوله: ولو سلمه شائعاً إلخ) قال في الفتاوى الخيرية: ولاتفيد الملك في ظاهر الرواية، قال الزيلعي: ولو سلمه شائعاً لايملكه حتى لاينفد تصرفه فيه فيكون مضموناً عليه، وينفذ فيه تصرف الواهب، ذكره الطحاوي وقاضي خان، وروي عن ابن رستم مثله، ... وذكر قبله هبة المشاع فيما يقسم لاتفيد الملك عند أبي حنيفة، وفي القهستاني: لاتفيد الملك، وهو المختار، كما في المضمرات، وهذا مروي عن أبي حنيفة وهو الصحيح اهـ". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں