بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں لگی رقم پر زکات کا حساب کیسے کیا جائے؟


سوال

27 اپریل 2019 کو مجھے زکات ادا کرنی ہے ، 27 کو سال مکمل ہوجائے گا، میرا سوال یہ ہے کہ میں نے پورا حساب لگایا تو میرے پاس چھ لاکھ  روپے ہیں جس پر 15000 روپے  زکات نکالنی ہے، جب کہ میں نے 2018 میں ایک دوست کے پاس 1500000 روپے  جوائنٹ انوسمنٹ کی ہے، مگر ابھی تک نہ رقم واپس آئی ہے اور نہ نفع کا کچھ معلوم ہے،  تو اس پندرہ لاکھ پر زکات  کا حساب کیسے کروں؟

جواب

واضح رہے کہ زکات کے سال کا حساب قمری مہینے سے کرنا چاہیے، نہ کہ شمسی تاریخوں سے، اس لیے کہ شمسی سال قمری سال سے تقریباً   گیارہ دن بڑا ہوتا ہے، تاریخ کی تبدیلی سے ملکیت میں موجود مالیت میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، نتیجتاً زکات کی مقررہ مقدار میں کمی بیشی کا امکان رہتاہے، جو ذمہ میں باقی رہ گئی تو مؤاخذہ ہوسکتاہے، لہذا سب سے پہلے تو  آپ اپنی زکات کے سال کے حساب کو قمری مہینوں کے اعتبار سے ڈھال لیں۔

صورتِ مسئولہ میں آپ اپنے دوست سے معلوم کرلیں کہ اس نے آپ کے پندرہ لاکھ سے کیا مال لیا ہے؟ پس جو مال لیا ہو، اور گودام میں موجود ہو، یا کسی صورت میں موجود ہو اس کی قیمتِ فروخت لگاکر کل مالیت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات  ادا کردیں، البتہ اگر آپ کے دوست نے پندرہ لاکھ میں سے کچھ رقم سے کاروبار کی اشیاءِ ضرورت، مثلاً: دفتری ٹیبل، کرسی، ریک، مشینری خریدی ہو تو ان اشیاء پر خرچ ہونے والی رقم پر زکات واجب نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں