بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیم کی تعمیر کے لیے قربانی کی کھال دینے کا حکم


سوال

 آیا قربانی کی کھالو ں کو ڈیم کی تعمیر میں لگانا درست ہے یا نہیں؟

جواب

قربانی کی کھالوں سے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر قربانی کرنے والا جانور کی کھال کو خود استعمال کرنا چاہتا ہے یعنی اس سے ضرورت کی کوئی چیز بنا کر اس کو اپنے استعمال میں لانا چاہتا ہے تو اس کو یہ اختیار ہے اور وہ ایسا کر سکتا ہے، اسی طرح اگر کسی کو ہدیہ کرنا چاہتا ہے تو ایسا کرنا بھی اس کے لیے جائز ہے، لیکن اگر مالک اس کھال کو بیچ دیتا ہے  یا کسی ادارے کو دے دیتا ہے جو ادارہ اس کی طرف سے بطورِ وکالت کھال بیچ دیتاہے تو ایسی صورت میں اس کی رقم کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے، یعنی فقیر مستحقِ زکاۃ کو مالک بنا کر دینا۔ اور ڈیم  کی تعمیر میں یہ رقم دینے سے کسی غریب و مستحق کی تملیک نہیں پائی جاتی ؛ اس لیے ڈیم کی تعمیر میں کھالیں دینا درست نہیں۔البتہ دیگر عطیات اور نفلی صدقات کی رقم سے ڈیم فنڈ میں معاونت کی جاسکتی ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (6/ 95)
'' ويجوز الانتفاع بجلد الأضحية، وهدي المتعة والتطوع بأن يتخذها فرواً أو بساطاً، أو حزاماً، أو غربالاً أو قطعاً، وله أن يشتري به متاع البيت كالغربال، والمنخل، والفرو، والكساء، والخف، وكذلك له أن يشتري به ثوباً يلبسه، ولا يشتري به الخل ...، وكذلك لا يشتري به اللحم، ولا بأس ببيعه بالدراهم ليتصدق بها، وليس له أن يبيعها بالدراهم لينفقه على نفسه، ولو فعل ذلك تصدق بثمنها''.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں