ڈیم بنانے کی مد میں چرمِ قربانی دینا کیسا ہے؟
قربانی کی کھال جب تک فروخت نہ کی جائے قربانی کرنے والے کو اس میں تین قسم کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں:
(1) خود استعمال کرنا۔ (2) کسی کو ہدیہ کے طور پر دینا۔ (3) فقراء اور مساکین پر صدقہ کرنا۔
تاہم اگر قربانی کی کھال نقد رقم یا کسی چیز کے عوض فروخت کردی گئی تو اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے، اور کھال کی قیمت کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے.
اگر ڈیم بنانے کے لیے کھال دی گئی تو جن کو دی وہ وکیل ہوں گے اور وہ ڈیم کے لیے اسے فروخت کریں گے تو وہ رقم صدقہ کرنا ضروری ہوجائے گا.اور اس صدقہ کا مصرف وہی صدقاتِ واجبہ والا اور زکات والا ہے ؛ لہذا تعمیراتی کاموں میں اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا.
خلاصہ یہ کہ ڈیم فنڈ میں کھال دینا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اگر یہ رقم کسی غریب کو دی جائے اور وہ بطیبِ خاطر (دلی رضامندی سے بغیر دباؤ کے) اس رقم کو ڈیم کی تعمیر کے لیے دےدے تو اس میں ممانعت نہیں۔'' فتاوی شامی'' میں ہے:
'' (ويتصدق بجلدها أو يعمل منه نحو غربال وجراب) وقربة وسفرة ودلو، (أو يبدله بما ينتفع به باقياً) كما مر، (لا بمستهلك كخل ولحم ونحوه) كدراهم، (فإن) (بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدراهم) (تصدق بثمنه)'' (6/328، کتاب الأضحیة، ط: سعید)
وفي الفتاوی البزازیة علی هامش الهندیة:
'' وله أن یبیعها بالدراهم لیتصدق بها لا أن ینتفع بالدراهم أو ینفقها علی نفسه ، فإن باع لذالك تصدق بالثمن''. (6/294، کتاب الأضحیة، ط: رشیدیه)
" فتاوی شامی" میں ہے:
'' وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني'' . (2/339، باب المصرف، ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201592
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن