بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیری فارم کی گائے پر زکات کا حکم، قربانی کے جانور تجارت کی نیت سے خریدنے کی صورت میں زکات کا حکم، بیل کی زکات کا نصاب


سوال

1: کیا ڈیری فارم کی گائے وغیرہ پر زکات ہے؟

2: کچھ لوگ قربانی کے جانور تجارت کے لیے پالتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟

3: اس میں بیل کی زکاۃ کا نصاب بتا دیں!

جواب

1) ڈیری فارم میں جو گائیں دودھ کے حصول کے لیے پالی جاتی ہیں ان کو چوں کہ چارہ خود خرید کر کھلایا جاتا ہے؛ اس لیے وہ ’’سائمہ‘‘ جانور نہیں ہیں؛ لہٰذا  ڈیری فارم کی گائے پر زکات واجب نہیں ہے، کیوں کہ جانوروں پر زکات واجب ہونے کی من جملہ شرائط میں سے ایک شرط ’’سائمہ‘‘ ہونا بھی ہے،  البتہ ڈیری فارم کی گائے سے جو دودھ حاصل ہوگا اس کی آمدنی اگر نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر سال گزرنے کی صورت میں ڈھائی فی صد زکات واجب ہوگی۔

2)قربانی کے جانور جو تجارت کے لیے پالے جاتے ہیں  ان کی مالیت نصابِ زکات کے بقدر ہونے کی صورت میں ان کی مجموعی مالیت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات دینا واجب ہوگا بشرطیکہ ان جانوروں پر سال گزر گیا ہو، یا مذکورہ مالِ تجارت کا مالک پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو زکات کا سال مکمل ہونے پر دیگر مال کے ساتھ  تجارت کے جانوروں کی مالیت کی بھی زکات ادا کرنا ہوگی۔

3)بیل اگر تجارت کے لیے ہو تو اس کی مالیت کے اعتبار سےاس پر زکات واجب ہوگی، یعنی اگر اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو سال گزرنے کی صورت میں کل مالیت کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات واجب ہوگا۔

اور اگر بیل تجارت کے لیے نہ ہوں، بلکہ افزائش نسل کے واسطے ہوں اور سال کا اکثر وقت باہر سے چر کر وہ اپنا گزارا کرتے ہوں تو یہ بیل سائمہ کہلائے گا اور اس کی زکات کا نصاب بھی وہی ہوگا جو سائمہ گائے کی زکات کا نصاب ہے،  سائمہ گائے کی زکات کا نصاب یہ ہے کہ اگر  تیس گائے پر پورا سال گزرگیا تو اُن پر زکات واجب ہوگی ، تیس سے لے کر انتالیس گائے پر ایک سالہ گائے یا بیل، پھر چالیس پر ’’دو سالہ‘‘ ایک گائے یا بیل، پھر ساٹھ پر دو عدد ’’ایک سالہ‘‘ گائے یا بیل، پھر ستر پر ایک ’’ایک سالہ‘‘ اور ایک ’’دو سالہ‘‘ ، اسی طرح ہرتیس پر ایک  ’’ایک سالہ‘‘ ، اور ہر چالیس پر ایک ’’دو سالہ‘‘ واجب ہوگا، او رجو عدد تیس اور چالیس دونوں کے درمیان تقسیم ہوجائے اس میں اختیار ہے  کہ تیس کے حساب سے زکات دے  یا چالیس کے حساب سے ، مثلاً ایک سو بیس پر چاہے چار ’’ ایک سالہ‘‘ دے، یا تین ’’دو سالہ‘‘ دے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 275):

"باب السائمة (هي) الراعية، وشرعاً (المكتفية بالرعي) المباح، ذكره الشمني (في أكثر العام لقصد الدر والنسل) ذكره الزيلعي، وزاد في المحيط (والزيادة والسمن) ليعم الذكور فقط، لكن في البدائع لو أسامها للحم فلا زكاة فيها كما لو أسامها للحمل والركوب ولو للتجارة ففيها زكاة التجارة ولعلهم تركوا ذلك لتصريحهم بالحكمين (فلو علفها نصفه لاتكون سائمةً) فلا زكاة فيها للشك في الموجب.

 (قوله: ولعلهم تركوا ذلك) أي ترك أصحاب المتون من تعريف السائمة ما زاده المصنف تبعاً للزيلعي والمحيط؛ لتصريحهم أي تصريح التاركين لذلك بالحكمين: أي بحكم ما نوى به التجارة من العروض الشاملة للحيوانات وبحكم المسامة للحمل والركوب، وهو وجوب زكاة التجارة في الأول، وعدمه في الثاني، فلايرد على تعريفهم بأنها المكتفية بالرعي في أكثر العام أنه تعريف بالأعم، أفاده في البحر. وحاصله: أن القيدين المذكورين في الزيلعي والمحيط ملحوظان في التعريف المذكور بقرينة التصريح المزبور، فلايكون تعريفاً بالأعم، على أن التعريف بالأعم إنما لايصح على رأي المتأخرين من علماء الميزان، وإلا فالمتقدمون وأهل اللغة على جوازه، وبه اندفع قول النهر: إن هذا غير دافع؛ إذ التعريف بالأعم لايصح ولاينفع فيه ذكر الحكمين بعده اهـ تأمل".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 279):

"باب زكاة البقر من البقر بالسكون: وهو الشق. سمي به؛ لأنه يشق الأرض كالثور؛ لأنه يثير الأرض. ومفرده بقرة والتاء للوحدة. (نصاب البقر والجاموس) ولو متوالدا من وحش وأهلية، بخلاف عكسه ووحشي بقر وغنم وغيرهما فإنه لا يعد في النصاب (ثلاثون سائمة) غير مشتركة (وفيها تبيع) لأنه يتبع أمه (ذو سنة) كاملة (أو تبيعة) أنثاه (وفي أربعين مسن ذو سنتين أو مسنة، وفيما زاد) على الأربعين (بحسابه) في ظاهر الرواية عن الإمام. وعنه: لا شيء فيما زاد (إلى ستين ففيها ضعف ما في ثلاثين) وهو قولهما والثلاثة وعليه الفتوى بحر عن الينابيع وتصحيح القدوري (ثم في كل ثلاثين تبيع، وفي كل أربعين مسنة) إلا إذا تداخلا كمائة وعشرين فيخير بين أربع أتبعة وثلاث مسنات، وهكذا. 

 (قوله: والتاء للوحدة) أي لا للتأنيث فيشمل الذكر والأنثى كما في البحر".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں