بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈپازٹ (deposit)کےطور پردی ہوئی رقوم کا حکم اور ان پر زکات


سوال

ڈپازٹ (deposit)کےطور پردی ہوئی رقوم پر زکاۃ واجب ہے یا نہیں؟ ہمارے یہاں مکان کرایہ پر لینےکےوقت اگرمعتد بہ بڑی رقم ڈپازٹ(deposit) کےطورپر مالک مکان کو دیں تو کرایہ بڑی حد تک کم کر دیاجاتاہے.جب کرایہ داری ختم کریں گے تو وہ رقم کرایہ دار کو واپس مل جاتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ ڈپازٹ (deposit)میں دی گئی ر قم سے کرایہ میں تخفیف کا فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟  ڈپازٹ (deposit)کی رقم مالک مکان کے ہاتھ  میں  امانت ہوگی یا دین ہوگی؟ جب  کہ مالک مکان ان رقوم کو خرچ کرتے ہیں  اور تجارت میں لگا کر منافع حاصل کرتے ہیں.یہ بات عرفاً معروف و مشہور بھی ہے کہ مالکِ مکان اس رقم کے تصرف کا مجازہے جب تک کرایہ داری ختم نہ ہو.

مدلل جواب سے نوازیں! مہربانی ہوگی.

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ  ڈپازٹ (deposit)کی رقم پر زکات واجب ہےیا نہیں؟  ایسے کرایہ دار کو زکات دینا جائز ہے یا نہیں جب کہ آمدنی بہت معمولی ہی رکھتا ہو تنگی کے ساتھ زندگی گزار رہاہو ؟

مدلل جواب عنایت فرمائیں!

جواب

  اگر کرایہ داری کے معاملہ میں کم کرایہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہو کہ اتنی رقم قرض کے طور پر دی جائیگی تو یہ درحقیقت اجارہ کے معاملہ میں ایک فاسد شرط لگانا ہے،  جو کہ جائز نہیں۔

البتہ اگر اس قسم کی شرط نہ لگائی گئی ہو اور ویسے ہی ایڈوانس رقم لی جائے جو کہ بسا اوقات اس نیت سے لی جاتی ہے کہ کرایہ دار املاک کو نقصان پہنچائے تو وصول کیا جاسکے تو یہ جائز ہے۔

نیز اگر مالکِ مکان اگر چہ زیادہ ایڈوانس کی وجہ سے کرایہ کم کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کے ہاتھ میں یک  مشت ایک بڑی رقم آجاتی ہے  اس نفع کی وجہ سے وہ کم کرایہ  پربھی راضی ہوجاتا  ہے،  جب معاملہ طے کرتے وقت ایک کرایہ اور ایک متعین ایڈوانس کی رقم طے ہوگئی تو  یہ معاملہ جائز ہے۔

اس رقم کی عرفی  حیثیت انتہاءً قرض ہی کی ہے، اگر چہ اس کو ڈپازٹ کہا جاتا ہے، لیکن لینے والا اس کو بہر صورت استعمال کرنے  کا جواز سمجھتا ہے، نیز یہ رقم مدت ختم ہونے پر واپس کرنا لازم بھی سمجھا جاتا ہے۔لہذا اس پر قرض والے احکامات ہی جاری ہوں گے، یعنی اس کی زکاۃ مقرض (قرض دینے والے) پر ہی لازم ہوگی۔ اور اس کرایہ دار کی  کل  مالیت اس ایڈوانس کو ملا کر  زکاۃ کے نصاب کے برابر نہ بنتی ہو  تو اس کرایہ دار کو زکاۃ دے سکتے ہیں ورنہ نہیں۔

"و محل الفساد أیضاً فیما إذاکان الشرط مقارناً للعقد أي مذکوراً في صلبه، فلو ألحق الشرط الفاسد بالعقد، قیل: یلتحق عند الإمام، ص، وقیل: لا،  وهو الصحیح.

وقال الفاضل ابن عابدین في رد المحتار: "و أشار أي صاحب التنویر بقوله: ولا بیع بشرط إلی أنه لا بد من کونه مقارناً للعقد؛ لأن الشرط الفاسد لو التحق بعد العقد، قیل: یلتحق عند أبي حنیفة، و قیل: لا، و هو الأ صح … ثم نقل عن جامع الفصولین أیضاً أنه لو ذکر البیع بلا شرط ثم ذکر الشرط علی وجه العدة جاز البیع ولزم الوفاء بالوعد؛ إذ المواعید قد تکون لازمةً، فیجعل لازماً لحاجة الناس اهـ و یظهر لي أنه متی وقع الشرط بعد العقد لایکون إلا علی وجه العدة، و حکمہ أنه یجب الوفاء به … وأنت علی علم بأن کلمتهم قد اتفقت أن الشرط إنما یکون مفسداً للعقد إذا کان مقارناً له، ولهذا قالوا: إنه لو باع مطلقاً، ثم أجل الثمن إلی أجل مجهول کالدیاس والقطاف صح التاجیل ولا یفسد البیع، مع أنه في حکم الشرط الفاسد، کما في رد المحتار". بقی ما إذا ذکر الشرط قبل العقد ثم عقد خالیاً عن الشرط، و قد ذکره في الثامن عشر من جامع الفصولین حیث قال: شرطا شرطاً فاسداً قبل العقد، ثم عقدا لم یبطل العقد، و یبطل لو تقارن". (شرح المجلة، ص 61 ج 2)

"هو فقیر وهو من له أدنی شيء، أي دون نصاب أو قدر نصاب. ومسکین من لا شيء له، فیحتاج إلی المسألة لقوته، وما یواري بدنه". (تنویر الأبصار علی الدر المختار ۲؍۳۳۹ کراچی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں