بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے مجبوراً رشوت دینے کا حکم


سوال

ڈرائیونگ لائسنس کے لیے رشوت دینا کیسا ہے کیوں کہ آج کل مجبوراً رشوت دینا پڑتی ہے؟

جواب

رشوت لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم ﷺ نے لعنت  فرمائی ہے، چنانچہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں،اس لیے رشوت دینے سے بچنا واجب ہے۔  رشوت کے بغیر لائسنس کا نہ بننا  یہ بات مبالغہ پر مبنی معلوم ہوتی ہے، بلکہ اب بھی بہت سے لوگ  رشوت دیے بغیر قانونی طریقہ سے لائسنس بنوا لیتے ہیں، لہذا  رشوت کے دیے بغیر لائسنس بنانا ممکن ہو تو رشوت دینا جائز نہیں ہوگا ۔ اور  گاڑی چلانے کی مطلوبہ اہلیت کے بغیر یا حکومت کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے مقرر کیے گئے قانونی تقاضوں (ٹیسٹ وغیرہ) کو مکمل کیے بغیرمحض رشوت کی بنیاد پر  ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)  حاصل کرنا بھی ناجائز ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص   گاڑی چلانے  کی مطلوبہ اہلیت بھی رکھتا ہو اور حکومت کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے مقرر کیے گئے قانونی تقاضوں (ٹیسٹ وغیرہ) کو  بھی پورا کر چکا ہو، لیکن اس کے باوجود  متعلقہ ادارہ  یا لوگ رشوت کے بغیر اسے ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)  دینے پر راضی نہ ہوں اورناحق رکاوٹ پیدا کریں تو پھر بھی اسے چاہیے کہ  وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر) اسے  ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)   مل جائے،اور جب تک ڈرائیونگ لائسنس نہ ملے اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجۃ  پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن اگر ڈرائیونگ لائسنس کی شدید ضرورت ہونے اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہونے کی بنا پر اسے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے مجبوراً  رشوت دینی ہی پڑے تو  وہ گناہ گار نہ ہوگا، کیوں کہ اپنے جائز حق کی وصولی کے لیے اگر مجبوراً رشوت دی جائے تو اس پر رشوت دینے کا گناہ نہیں ملتا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔

سنن أبی داود  میں ہے:
’’عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»‘‘.  (3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: 3580، ط: المکتبة العصریة)

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

’’(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه‘‘. (کتاب الإمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني، ج:۷ ؍۲۹۵ ، ط:دارالکتب العلمیة) 

فتاوی شامی میں ہے:

’’دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ ‘‘(6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

الموسوعة الفقهیة الکویتیةمیں ہے:

’’ الرشوة في اللغة: مثلثة الراء: الجعل، وما يعطى لقضاء مصلحة، وجمعها رشا ورشا. قال الفيومي: الرشوة - بالكسر -: ما يعطيه الشخص للحاكم أو غيره ليحكم له، أو يحمله على ما يريد، وقال ابن الأثير: الرشوة: الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء ۔ وقال أبو العباس: الرشوة مأخوذة من رشا الفرخ إذا مد رأسه إلى أمه لتزقه - وراشاه: حاباه، وصانعه، وظاهره - وارتشى: أخذ رشوة، ويقال: ارتشى منه رشوة: أي أخذها وترشاه: لاينه، كما يصانع الحاكم بالرشوة - واسترشى: طلب رشوة- والراشي: من يعطي الذي يعينه على الباطل. - والمرتشي: الآخذ - والرائش: الذي يسعى بينهما يستزيد لهذا، ويستنقص لهذا.

وقد تسمى الرشوة البرطيل وجمعه براطيل. قال المرتضى الزبيدي: واختلفوا في البرطيل بمعنى الرشوة، هل هو عربي أو لا؟ . وفي المثل: البراطيل تنصر الأباطيل.

والرشوة في الاصطلاح: ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل وهو أخص من التعريف اللغوي، حيث قيد بما أعطي لإحقاق الباطل، أو إبطال الحق.... الرشوة في الحكم، ورشوة المسئول عن عمل حرام بلا خلاف، وهي من الكبائر.

قال الله تعالى: {سماعون للكذب أكالون للسحت } ، قال الحسن وسعيد بن جبير: هو الرشوة.

وقال تعالى: {ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقا من أموال الناس بالإثم وأنتم تعلمون} .

وروى عبد الله بن عمرو قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي وفي رواية زيادة " والرائش

ويحرم طلب الرشوة، وبذلها، وقبولها، كما يحرم عمل الوسيط بين الراشي والمرتشي

غير أنه يجوز للإنسان - عند الجمهور - أن يدفع رشوة للحصول على حق، أو لدفع ظلم أو ضرر، ويكون الإثم على المرتشي دون الراشي ۔ قال أبو الليث السمرقندي: لا بأس أن يدفع الرجل عن نفسه وماله بالرشوة ... واستدلوا من الأثر بما ورد عن ابن مسعود رضي الله عنه أنه كان بالحبشة فرشا بدينارين، حتى خلي سبيله. وقال: إن الإثم على القابض دون الدافع. وعن عطاء والحسن: لا بأس بأن يصانع الرجل عن نفسه وماله إذا خاف الظلم.

أقسام الرشوة:

قسم الحنفية الرشوة إلى أربعة أقسام منها:

أ - الرشوة على تقليد القضاء والإمارة وهي حرام على الآخذ والمعطي.

ب - ارتشاء القاضي ليحكم، وهو كذلك حرام على الآخذ والمعطي، ولو كان القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.

ج - أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان، دفعاً للضرر أو جلباً للنفع، وهو حرام على الآخذ فقط.

د - إعطاء إنسان غير موظف عند القاضي أو الحاكم مالاً ليقوم بتحصيل حقه له، فإنه يحل دفع ذلك وأخذه؛ لأنه وإن كانت معاونة الإنسان للآخر بدون مال واجبة، فأخذ المال مقابل المعاونة لم يكن إلا بمثابة أجرة‘‘. (حرف الراء، رشوة، ج:۲۲ ؍۲۱۹ .... ۲۲۳ ،ط:دار السلاسل کویت)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں