میں نے ایک انویسٹمنٹ کمپنی میں کچھ رقم انویسٹ کی ہے، اب روزانہ کی بنیاد پر مجھے نفع ملتا ہے جو میں کسی بھی وقت کیش کروا سکتا ہوں، کمپنی یہ کہتی ہے کہ جب تک وہ نفع میں ہے تب تک نفع دے رہی ہے، نقصان کی صورت میں رقم نا قابلِ واپسی ہے، اس طرح سے میں اور کمپنی نفع نقصان میں شریک ہیں، کمپنی چینلز سے ٹائم خرید کر ایڈورٹائسمنٹ کمپنی کو فروخت کرتی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ منافع میرے لیے جائز ہے؟
آپ کا سوال چینل ٹائمز کمپنی میں پیسہ لگانے سے متعلق ہے اور کمپنی کی ویب سائٹ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ :
مذکورہ کمپنی کے اس معاملے میں دو عقد انجام پارہے ہیں:
ایک عقد چینل والوں اور اس ادارے چینل ٹائمز کے درمیان ہے، یہ عقدِ اجارہ ہے جس میں یہ ادارہ ان چینل والوں سے اشتہار کے چلانے کے لیے ان کے چینل کو کرایہ پر لیتا ہے۔
دوسرا عقد اس میں سائل اور اس ادارے کے درمیان ہے کہ جس میں سائل اپنی رقم اس ادارے والوں کو چینل کا وقت خریدنے کے لیے مہیا کرتا ہے۔اور اس میں جتنا اس کا سرمایہ ہوگا اس کے حساب سے ایک متعین نفع اس کو ملتا ہے، جیسے 150 ڈالر پر ایک ڈالریومیہ۔ مزید یہ کہ نئے لوگوں کو اس میں شامل کرانے پر ہر ایک کے ممبر کے بدلہ کچھ کمیشن بھی دیا جاتا ہے ۔
اس عقد میں درج ذیل مفاسد ہیں جس کی وجہ سے یہ عقد ناجائز ہے:
لہذا مذکورہ ادارے سے اس نوعیت کا معاہدہ کرنا جائز نہیں ۔ اور اگر کسی نے یہ عقد کرلیا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس عقد کو ختم کردے اور اپنی اصل رقم واپس لےلے۔
"عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنه قال: سمعت النبي صلی اﷲ علیه وسلم یقول: إن أشد الناس عذاباً یوم القیامة المصورون".
(صحيح البخاري، باب عذاب المصورین یوم القیامة، النسخة الهندیة۲/ ۸۸۰، رقم:۵۷۱۷، ف:۵۹۵۰)
حاشية ابن عابدين (6/ 91):
"( للمستأجر أن يؤجر المؤجر الخ ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل، إلا في مسألتين كما مر أول باب ما يجوز من الإجارة".
صحيح مسلم ، باب لعن أکل أمر باوموکله، النسخة الهندیة۲۷/۲۷، بیت الأفکار، رقم:۱۵۹۸:
"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم، آکل الربوا، ومؤکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".
سنن النسائي، البحث علی ترک الشبهات، النسخة الهندیة۲/۲۸۵:
"عن أبي الحوراء السعدي، قال: قلت للحسن بن علي: ما حفظت من رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم؟ قال: حفظت منه: «دع ما یریبک إلی مالا یریبک»".
الفتاوى الهندية،كتاب الشركة،،قديمي ج٢،ص٣٠٢:
"وأن يكون الربح معلوم القدر فإن كان مجهولاً تفسد الشركة، وأن يكون الربح جزأً شائعاً في الجملة لا معيناً، فإن عين عشرةً أو مأةً أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً".
الدر مع الرد، كتاب المضاربة، ص٦٤٨،ج٥ كراچي:
"وكون الربح بينهما شائعاً، فلو عين قدراً فسدت، وكون نصيب كل منهما معلوماً عند العقد".
ردالمحتار، كتاب الشركة،مطلب في شركة العنان:
"إن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، والوضيعة بينهما علي قدر رأس مالهما أبداً".
ردالمحتار ص٤٤ ج:
"قال في التتارخانیة: وفي الدلال والسمسار یجب أجرالمثل، وما تواضعوا علیه إن في کل عشرة دنانیر کذا فذلک حرام علیهم. وفي الحا وي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا باس به، وإن کان في الأصل فاسداً؛ لکثرة التعامل".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200520
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن