بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چھپ کر نکاح کرنا


سوال

میری عمر 34 سال ہے اور میں شادی شدہ ہوں ، میرے  آفس میں ایک لڑکی کام کرتی ہے جس کی عمر 37  سال ہے اور اپنے گھروالوں کو سپورٹ کرتی ہے اس کی ایک غیر شادی شدہ بہن بھی ہے اور اس کے ابو اس سے بات نہیں کرتے، ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں، جس کا اظہار باتوں باتوں میں ہم کر بھی چکے ہیں اور ہمارا ملنا جلنابھی چلتا رہتا ہے اور تھوڑا بہت جسمانی تعلق بھی ہوگیا ہے، مگر ہم اب تک زنا سے بچے ہوئے ہیں اب ہم نکاح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ یہ معاملہ صحیح طریقہ سے ہوجائے، مگر میں دوسری شادی سے گھبراتا ہوں، کیوں کہ معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، وہ نکاح کرنے تیار ہے کیوں کہ باتوں باتوں میں وہ یہ کہہ چکی ہے کہ جسمانی خواہش پوری نہیں ہو پارہی ہے اور گناہ بھی نہیں کرنا، اس لیے ہم چھپ کر نکاح کرلیتے ہیں  نہ میں اپنے گھروالوں کو کچھ بتا ؤں اور نہ وہ اپنے گھر والوں کو کچھ بتائے، کم سے کم ہم اپنی خواہش پوری کر سکیں اور گناہ سے بچ سکیں۔

آپ سے پوچھنا ہے کہ کیا ایسے نکاح ہوجائے گا جس میں کبھی کسی کو اپنا رشتہ نہ بتائیں اور میاں بیوی بھی رہیں؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے اسلامی معاشرے کو جنسی بے راہ روی سے بچاکر تسکینِ شہوت کے لیے اور اسے اعلی اَقدار پر استوار کرنے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے نکاح کا حلال راستہ متعین کیا ہے، اور نکاح کی صورت میں ہم بستری و جسمانی تعلقات قائم کرنے کو حلال کردیا ہے جب کہ اس کے علاوہ تسکینِ شہوت کے دیگر تمام ذرائع کو حرام قرار دیاہے۔ نیز نکاح چوں کہ تسکینِ شہوت کا حلال ذریعہ ہے اس وجہ سے نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث. (سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)

نیز شریعتِ مطہرہ نے مردوں کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے، البتہ ان کو اپنی تمام بیویوں کے درمیان ان کے لباس، نان و نفقہ ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی کے حوالہ سے برابری کرنے کا پابند کیا ہے، اور بیویوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی نا انصافی کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے اور نا انصاف شوہروں کے حوالہ سے سخت وعیدیں سنائی ہیں، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : " جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرتا ہو تو وہ روزِ قیامت (میدانِ حشر میں) اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ڈھلکا (فالج زدہ) ہوا ہو گا۔ سنن ترمذی میں ہے:

’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَهُمَا جَاءَ يَوْمَ القِيَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِطٌ»‘‘. (الترمذي، ابواب النكاح، باب ما جاء في التسوية بين الضرائر، رقم الحديث: ١١٤١)

لہذا صورتِ مسئولہ میں چھپ کر نکاح کرنا چوں کہ مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، جیسے ہم بستری کے نتیجہ میں حمل ٹھہرنے  کے بعد حمل ضائع کروانا ( جوکہ ایک درجہ میں قتلِ اولاد کے زمرے میں آتا ہے)، مذکورہ مرد و خاتون کو نازیبا حرکات کرتے دیکھنے والوں کا ان کے بارے میں بدگمان ہونا یا ان پر بد چلنی کا الزام لگانا، شوہر کی جانب سے پہلی بیوی کی حق تلفی کرنا، مذکورہ خاتون کا اپنی بیٹی کو کنواری (غیر شادی شدہ) سمجھ کر اس کے رشتہ کی فکر کرنا اور رشتہ مل جانے پر اس کی منگنی کرنا یا نکاح کی جستجو کرنا جوکہ والدین کے ساتھ دھوکا دھی کے زمرے میں آتا ہے، اور ممکنہ صورت میں مذکورہ لڑکی کا نکاح ہونے کے باوجود والدین کے کہنے پر کسی اور سے منگنی کرنا یا نکاح پر راضی ہوجانا اس قسم کے دیگر مفاسد کی بنا پر چھپ کر نکاح کی اجازت نہ ہوگی۔

البتہ اگر سائل مذکورہ خاتون سے علی الاعلان باضابطہ کرسکتا ہے اور وہ دونوں بیویوں کے درمیان نان و نفقہ، لباس، ہر ایک کو الگ رہائش فراہم کرنے اور شب باشی میں برابری کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو معاشرے کی پرواہ  کرنے کے بجائے اسے چاہیے کہ باضابطہ علی الاعلان نکاح کرلے۔ نیز ماضی میں جو کچھ ہوا وہ ناجائز اور گناہ کے کام ہیں، لہٰذا اس پر سچے دل سے اللہ رب العزت سے فوری طور پر معافی مانگنا دونوں کے لیے ضروری ہے، نیز دونوں آزادانہ اختلاط سے اجتناب کریں اور پردہ کا اہتمام کریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں