بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چاشت کی نماز کا وقت / نماز میں دو سورتوں کے درمیان ایک سورت چھوڑنا


سوال

1. چاشت کی نماز کاوقت کیاہے؟اندازاً طلوعِ آفتاب کےکتنی دیر بعد ہے؟

2. کچھ لوگ کہتے ہیں: نماز میں آخری سورتوں میں سے ایک  چھوڑ کرایک نہیں پڑھنی چاہیے۔جیسا کہ سورہ نصر کے بعدقل ھواللہ احد؟

جواب

1۔۔ چاشت کا وقت آفتاب  اچھی طرح طلوع ہونے کے بعد(طلوع ہونے کے تقریباً 15 منٹ بعد) سے زوال سے پہلے  تک باقی رہتا ہے، لیکن اس کا افضل  وقت  یہ ہے کہ ایک چوتھائی دن گزرنے کے بعد چاشت کی نماز پڑھی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 22)

"(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحى) على الصحيح من بعد الطلوع إلى الزوال، ووقتها المختار بعد ربع النهار.

 (قوله: من بعد الطلوع) عبارة شرح المنية: من ارتفاع الشمس. (قوله: ووقتها المختار) أي الذي يختار ويرجح لفعلها، وهذا عزاه في شرح المنية إلى الحاوي، وقال: لحديث زيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم  قال : «صلاة الأوابين حين ترمض الفصال». رواه مسلم. وترمض بفتح التاء والميم: أي تبرك من شدة الحر في أخفافها." اهـ

2۔۔  فرض نمازوں میں دو  چھوٹی سورتوں کے درمیان  ایک سورت چھوڑدینا مکروہِ تنزیہی ہے،  یعنی دو سورتیں دو رکعت میں پڑھی جائیں دونوں سورتوں کے درمیان میں کوئی چھوٹی سورت چھوڑدی جائے، جیسے  پہلی رکعت میں  سورۃ تکاثر پڑھی اور دوسری میں  سورۂ ہمزہ پڑھی ، اور درمیان میں سورہ عصر چھوڑدی تو  یہ مکروہ تنزیہی ہے، مناسب نہیں ہے، لیکن  نماز ہوجائے گی سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔ 

اسی طرح  ایسی دو سورتوں کو ایک رکعت میں پڑھنا  جن کے درمیان کوئی سورت ہو خواہ چھوٹی ہو یا بڑی ، ایک ہو یا ایک سے زیادہ ، یہ بھی مکروہِ تنزیہی ہے۔اور یہ دونوں حکم فرض نماز کے ساتھ خاص ہیں، نفل نماز میں ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 546)
"ويكره الفصل بسورة قصيرة، وأن يقرأ منكوساً.

(قوله: ويكره الفصل بسورة قصيرة) أما بسورة طويلة بحيث يلزم منه إطالة الركعة الثانية إطالةً كثيرةً فلا يكره، شرح المنية. كما إذا كانت سورتان قصيرتان، وهذا لو في ركعتين، أما في ركعة فيكره الجمع بين سورتين بينهما سور أو سورة، فتح. وفي التتارخانية: إذا جمع بين سورتين في ركعة رأيت في موضع أنه لا بأس به. وذكر شيخ الإسلام لا ينبغي له أن يفعل على ما هو ظاهر الرواية. اهـ. وفي شرح المنية: الأولى أن لا يفعل في الفرض ولو فعل لايكره إلا أن يترك بينهما سورة أو أكثر".

الفتاوى الهندية (1/ 78)
"وإذا جمع بين سورتين بينهما سور أو سورة واحدة في ركعة واحدة يكره، وأما في ركعتين إن كان بينهما سور لا يكره، وإن كان بينهما سورة واحدة قال بعضهم: يكره، وقال بعضهم: إن كانت السورة طويلة لا يكره. هكذا في المحيط. كما إذا كان بينهما سورتان قصيرتان. كذا في الخلاصة".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں