بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار رکعات والی نماز میں بقیہ دو رکعتوں کے اضافے کا حکم کب نازل ہوا؟


سوال

 کچھ لوگ کہتے ہیں کہ :پہلے جب آپ صلی علیہ وسلم کونمازوں کا تحفہ ملا تھا وہ دورکعتیں فرض تھیں۔ باقی دو رکعات کب فرض ہوئیں؟اس میں اگر تفصیل ہے تو بتادیں۔

جواب

اس بارے میں کتب احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مندرجہ ذیل روایات  منقول ہیں:

''عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، أم المؤمنين قالت: فرض الله الصلاة حين فرضهاركعتين ركعتينفي الحضر والسفرفأقرتصلاة السفر وزيد في صلاة الحضر.''۔(صحیح البخاری )

ترجمہ : عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے  ہیں ،انہوں نے ارشاد فرمایاکہ: اللہ نے جب نماز فرض کی تھی تو دو دو رکعتیں فرض کی تھیں، حضر میں بھی اور سفر میں بھی، سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں زیادتی کردی گی۔

بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے:

'' عن عائشة ، رضي الله عنها ، قالت: فرضت الصلاةركعتين ثم هاجرالنبي صلى الله عليه وسلم ففرضت أربعاً وتركت صلاة السفر على الأولى''۔(صحیح البخاری)

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ  انہوں نے فرمایا : (ابتداءً سفر و حضر میں) نماز کی دو ہی رکعتیں فرض ہوئی تھیں، پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو (مقیم کے لیے ) چار رکعتیں فرض قرار دے دی گئیں اور حالت سفر میں پہلی ہی دو رکعتیں فرض رہیں۔

ان دونوں روایات سے یہ معلوم ہوا کہ ابتدا میں جب نماز فرض ہوئی تو دو،دو رکعتیں ہی فرض ہوئی تھیں ،(ظہر عصر اور عشاء میں)بقیہ دورکعتوں کے اضافے کا حکم مدینہ منورہ ہجرت کے بعد نازل ہوا۔

البتہ مدینہ منورہ ہجرت کے کتنے عرصہ بعد دورکعتوں کااضافہ کیاگیا!اس بارے میں کوئی متعین تاریخ منقول نہیں،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں علامہ سہیلی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :تقریباً ایک سال بعد یا چالیس دن بعد بقیہ دورکعتوں کے اضافے کا حکم دیاگیاہے ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت درج ذیل ہے:

'' فعين في هذه الرواية إن الزيادة في قوله هنا: «وزيد في صلاة الحضر» وقعت بالمدينة۔۔۔۔والذي يظهر لي وبه تجتمع الأدلة السابقة: أن الصلوات فرضت ليلة الإسراء ركعتين ركعتين إلا المغرب ثم زيدت بعد الهجرة عقب الهجرة إلا الصبح كما روى ابن خزيمة وابن حبان والبيهقي من طريق الشعبي عن مسروق عن عائشة قالت: فرضت صلاة الحضر والسفر ركعتين ركعتين، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه و سلم المدينة واطمأن، زِيدَ في صلاة الحضر ركعتان ركعتان وتركت صلاة الفجر لطول القراءة وصلاة المغرب لأنها وتر النهار أه۔۔۔۔ وأورده السهيلي بلفظ بعد الهجرة بعام أو نحوه وقيل بعد الهجرة بأربعين يوما۔(1/464،ط:دارالمعرفہ)

یعنی مدینہ منورہ ہجرت کے تقریباً ایک سال  یاچالیس دن بعدظہر ,عصراور عشاء میں  دو رکعتوں کا اضافہ کیاگیاہے،فجر کی نماز کو اپنی اصلی حالت پر رہنے دیاگیا؛ اس لیے کہ نمازفجر میں طویل قراء ت ہوتی ہے اور مغرب کی بھی تین ہی رکعتیں برقراررکھی گئیں کہ یہ دن کے وترکہلاتے ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143901200102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں