بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چائے اور خوشی کے مواقع کے لیے جبراً چندہ لینا


سوال

ہمارے کالج میں ایک نئے پرنسپل مقرر ہوئے ہیں ،  انہوں نے اسٹاف میں باہمی محبت کو فروغ دینے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ کچھ اقدامات کیے ہیں :

 1 ۔ ہر شخص چائے کی مد میں ماہانہ چار سو روپے جمع کرانے کا پابند ہوگا ۔ (خواہ وہ چائے پیے یا نہ پیے)

2 ۔ہر استاد یا استاد کے بیٹے/بیٹی کی شادی کے موقع پر فی کس پانچ سو روپے جمع کرانے ہوں گے ۔(خواہ شادی میں شرکت کرے یا نہ کرے)

میں نے ان معاملات کے بارے میں کالج کے اساتذہ میں سے دو علماء ( دونوں فارغ التحصیل بنوری ٹاؤن ) سے ان کی شرعی حیثیت کے بارے میں سوال کیا تو حیران کن طور پر دونوں کی دو بالکل مختلف آراء  سامنے آئیں ۔ ایک کے مطابق یہ عمل غلط ہے؛ کیوں کہ اس میں کچھ لوگ خوشی سے اور کچھ پرنسپل کی خوشنودی اور لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے ان میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔دوسرے عالم کے مطابق یہ نہ صرف جائز بلکہ پرنسپل صاحب کا ایک مستحسن اقدام ہے؛ کیوں کہ شریعت میں کنجوسی ایک لائق حوصلہ شکنی خصلت ہے، اور آج کل کے دور میں لوگوں کے اندر ازخود خرچ کرنے کا جذبہ تو بالکل ختم ہی ہو چکا ہے تو اس بہانے اس پر بھی عمل ہو جائے گا، ورنہ لوگ خرچ تو بالکل کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔

اس بارے میں شرعی حکم بتادیں ۔

نیز آپ سے گزارش ہے کہ اگر ہو سکے تو اس سوال و جواب کو جمعہ کے دن کے جنگ اخبار کے " آپ کے مسائل اور ان کا حل" نامی کالم میں بھی شائع فرمادیں؛ تاکہ ہم سب کو اس بحث برائے بحث سے خلاصی حاصل ہو ۔

جواب

حدیث شریف میں ہے :

"حضرت ابوحرہ رقاشی تابعی اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا،  جان لو کسی بھی دوسرے شخص کا مال لینا یا استعمال کرنا اس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے "۔(مشکاۃ )

اس روایت سے معلوم ہو اکہ کسی بھی مسلمان کا مال اس کی رضا ورغبت اور طیبِ قلب کے بغیر لینا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ لہذا مذکورہ شخص کا یہ اقدام کہ کالج کے اسٹاف میں سے ہرشخص چائے کی مد میں اتنی اتنی رقم ہرحال میں جمع کروائے گاجائز نہیں ہے۔البتہ اگر اسٹاف کے افراد اپنی مرضی اور خوشی سے یاچائے کے خرچ کی مقدار کے برابراپنے اپنے حصہ کی رقم جمع کروائیں اور پھر چائے کااستعمال کریں یانہ کریں یہ جائز ہوگا۔

نیز کسی استاذ کی بیٹی /بیٹے کی شادی کے موقع پر پانچ سوروپے مقرر کرکے اسٹاف سے وصول کرنا یہ بھی ناجائز ہے۔البتہ اگر ازراہِ ہمدردی ازخود اسٹاف تعاون کرے تویہ کارِثواب ہے،نیز یہ بھی یاد رہے کہ شادی کے مواقع پر رقم کا تبادلہ اگر رسم کے طور پر ہو جسے "نیوتہ"  کہاجاتاہے تو یہ رسم بھی نہایت قبیح اور ناجائز ہے؛ اس لیے کہ یہ رقم ازراہِ ہمدردی نہیں دی جاتی، بلکہ بطورِ قرض کے دی جاتی ہے، اور باقاعدہ اس رقم کااندراج کیاجاتاہے اور اس کوواپس کرنا ضروری سمجھاجاتاہے۔البتہ اگر خوشی کے مواقع پر کسی کے ساتھ تعاون کیاجائے اور اس میں ریا  و نمود نہ ہو اور نہ ہی صلہ وبدلہ لینے کی نیت ہو تو اس قسم کہ امداد جائز ہے۔

"البحرالرائق" میں ہے:

''لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي''.(13/168)

فتاوی شامی میں ہے:

''وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكمَ القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟  أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل، يلزم الوفاء به، مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته، وإن كان العرف خلافَ ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه، فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه: أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً هـ  قلت: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى انهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدي، فإذا جعل المهدي وليمةً يراجع المهدي الدفتر، فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه''.(5/696)فقط واللہ اعلم

نوٹ:روزنامہ جنگ میں سوال وجواب کی اشاعت کے لیے مذکورہ اخبار کے اقرا صفحہ پر فراہم کردہ ای میل  ایڈریس پر اپنا سوال میل کردیں۔


فتوی نمبر : 143909202214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں