بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیدائشی اندھا، بہرا، اور گونگا شخص احکاماتِ شرعیہ کا مکلف ہے یا نہیں؟


سوال

ایک آدمی پیدائشی گونگا، اندھا، بہرا ہو تو کیا اس پر اللہ تعالی کی طرف سے احکاماتِ شرعیہ فرض ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  احکاماتِ شرعیہ کے مکلف ہونے کا مدار یہ ہے کہ بالغ ہو اور عاقل ہو، یعنی تکلیف کا مدار عقل پر ہے، لہٰذا اگر کوئی انسان نابالغ یا مجنون وغیرہ نہیں ہے اور اس کی عقل صحیح ہے تو  وہ مکلف ہے،اگرچہ اس کے بعض حواس صحیح نہ ہوں، لیکن اس کا مکلف ہونا اس کی وسعت کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو اس کی وسعت اور طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا ہے، لہذا ایسا شخص جو اندھا، بہرا اور گونگا بھی ہو لیکن اس کی عقل کا ادراک درست ہو تو وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی توحید اور صفاتِ باری تعالیٰ پر ایمان کا مکلف ہوگا، نیز اگر ایسے شخص کو کسی طرح کوئی سمجھا سکتا ہے تو وہ اس کو سمجھائے گا، اور جس قدر وہ سمجھ سکے گا اسی قدر وہ مکلف ہوگا، اس سے زیادہ نہیں ہے۔

اور بعض روایات میں ہے کہ ایسے لوگ جن تک کسی وجہ سے دعوت یا احکامات نہیں پہنچ سکے یا وہ معذور تھے مثلاً اندھے ، بہرے وغیرہ تو ایسے لوگ  قیامت کے دن اپنا عذر پیش کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان سے اسی وقت امتحان لیں گے، اور اس کے مطابق فیصلہ کریں گے، الغرض دنیاوی اَحکام میں ایسےلوگ اپنی طاقت اور وسعت کے بقدر مکلف ہیں۔

ہمارے ملک میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں، بلکہ وہ تبلیغی جماعت میں بھی چلتے ہیں، جو بصارت، سماعت، اور قوتِ گویائی تینوں سے محروم ہیں، لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں، بلکہ یہاں تک وہ بیان بھی اشاروں سے کرلیتے ہیں، یہ مشاہدہ کی چیز ہے، اور ان کے مخصوص اشارے ہوتے ہیں  جو وہ ہاتھ وغیرہ کو چھو کر معلوم کرتے ہیں۔

موسوعة القواعد الفقهية (6/ 212):
"والمراد بالأفعال التى يؤاخذ بها الصبي ما يتعلق بحقوق العباد المالية، وأما حقوق الله تعالى فهو لايؤاخذ بها ولاتجب عليه، ولكن يؤمر بفعل الطاعات للتعود عليها كالصلاة والصيام.
والمؤاخذة عليه بأفعاله ليست من باب التكليف - لأنه غير مكلف -؛ لأن مدار التكليف على البلوغ عاقلاً، وإنما هذا من باب ربط الأحكام بأسبابها، فهو من باب الأحكام الشرعية الوضعية لا التكليفية".
نظم الدرر في تناسب الآيات والسور (20/ 237):
"ولما كان السمع أعظم مدارك العقل الذي هو مدار التكليف قالوا: {نسمع} أي سماعاً ينفع بالقبول للحق والرد للباطل {أو نعقل} أي بما أدته إلينا حاسة السمع وغيرها عقلاً ينجي وإن لم يكن سمع".

الأساس في التفسير (10/ 6027):
"قال النسفي: وفيه دليل على أن مدار التكليف على أدلة السمع والعقل، وأنهما حجتان ملزمتان. قال ابن كثير: (أي: لو كانت لنا عقول ننتفع بها، أو نسمع ما أنزل الله من الحق لما كنا على ما كنا عليه من الكفر بالله والاغترار به، ولكن لم يكن لنا فهم نعي به ما جاءت به الرسل، ولا كان لنا عقل يرشدنا إلى اتباعهم)".
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 50):
"(كتاب الصلاة) (شرط لفرضيتها الإسلام، والعقل، والبلوغ) لما تقرر في الأصول أن مدار التكليف بالفروع هذه الثلاثة". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 704):
"وفسر في الحواشي السعدية التكليف بالإسلام والعقل والبلوغ".

الحاوي للفتاوي (2/ 246):
"أَخْرَجَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ فِي مُسْنَدَيْهِمَا، وَالْبَيْهَقِيُّ فِي " كِتَابِ الِاعْتِقَادِ " وَصَحَّحَهُ، عَنِ الأسود بن  سريع، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَرْبَعَةٌ يُمْتَحَنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، رَجُلٌ أَصَمُّ لَا يَسْمَعُ شَيْئًا، وَرَجُلٌ أَحْمَقُ، وَرَجُلٌ هَرِمٌ، وَرَجُلٌ مَاتَ فِي فَتْرَةٍ، فَأَمَّا الْأَصَمُّ فَيَقُولُ: رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَمَا أَسْمَعُ شَيْئًا، وَأَمَّا الْأَحْمَقُ فَيَقُولُ: رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَالصِّبْيَانُ يَحْذِفُونِي بِالْبَعْرِ، وَأَمَّا الْهَرِمُ فَيَقُولُ: رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَمَا أَعْقِلُ شَيْئًا، وَأَمَّا الَّذِي مَاتَ فِي الْفَتْرَةِ فَيَقُولُ: رَبِّ مَا أَتَانِي لَكَ رَسُولٌ، فَيَأْخُذُ مَوَاثِيقَهُمْ لَيُطِيعُنَّهُ، فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ أَنِ ادْخُلُوا النَّارَ، فَمَنْ دَخَلَهَا كَانَتْ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا، وَمَنْ لَمْ يَدْخُلْهَا يُسْحَبُ إِلَيْهَا».
الْحَدِيثُ الثَّانِي: أَخْرَجَ أحمد وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ فِي مُسْنَدَيْهِمَا، وابن مردويه فِي تَفْسِيرِهِ، وَالْبَيْهَقِيُّ فِي " الِاعْتِقَادِ "، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعَةٌ يُمْتَحَنُونَ، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ الأسود بن سريع سَوَاءً. ... الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: أَخْرَجَ عبد الرزاق، وَابْنُ جَرِيرٍ، وابن المنذر، وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، جَمَعَ اللَّهُ أَهْلَ الْفَتْرَةِ، وَالْمَعْتُوهَ، وَالْأَصَمَّ، وَالْأَبْكَمَ، وَالشُّيُوخَ الَّذِينَ لَمْ يُدْرِكُوا الْإِسْلَامَ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ رَسُولًا أَنِ ادْخُلُوا النَّارَ، فَيَقُولُونَ: كَيْفَ وَلَمْ تَأْتِنَا رُسُلٌ؟ قَالَ: وَايْمُ اللَّهِ، لَوْ دَخَلُوهَا لَكَانَتْ عَلَيْهِمْ بَرْدًا وَسَلَامًا، ثُمَّ يُرْسِلُ إِلَيْهِمْ، فَيُطِيعُهُ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يُطِيعَهُ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ {وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا} [الإسراء: 15] » إِسْنَادُهُ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں