ایک آدمی مسجد میں آکر پہلی صف میں اپنا رومال/ ڈیکس رکھ دے، تاکہ اس کی جگہ رک جائے اور وہ موجود نہ ہو اور جو جلدی آئے وہ پہلی صف میں بیٹھ نہ سکے، تو کیا یہ جگہ روکنا صحیح ہے؟
مسجد اللہ جل شانہ کا گھر ہے، جس میں تمام مسلمان برابر کے حق دار ہوتے ہیں، اس پر کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی، لہذا مسجد میں کسی جگہ کو ڈیکس، رومال، چادر، مصلی، تسبیح وغیرہ رکھ کر اپنے لیے متعین کرکے چلے جانا اور جماعت کے وقت آکر اس جگہ پر اپنا حق جتانا اور بیٹھے ہوئے شخص کو اس جگہ سے ہٹنے پر مجبور کرنا یا اس جگہ پر کسی کو بیٹھنے نہ دینا، یہ سب ناجائز ہے، البتہ پہلے سے مسجد میں آکر کسی جگہ بیٹھنے کے بعد بغرضِ وضو یا قرآنِ مجید لینے کے لیے اٹھتے ہوئے اس جگہ پر رومال، تسبیح وغیرہ رکھ کر جانا، یا آس پڑوس میں بیٹھے شخص کو کہہ کر جانا جائز ہے، اور اس طرح کرنے سے وہ جگہ اس شخص کے لیے مخصوص رہے گی، جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:
(قَوْلُهُ: وَتَخْصِيصُ مَكَان لِنَفْسِهِ) لِأَنَّهُ يُخِلُّ بِالْخُشُوعِ، كَذَا فِي الْقُنْيَةِ: أَيْ لِأَنَّهُ إذَا اعْتَادَهُ ثُمَّ صَلَّى فِي غَيْرِهِ يَبْقَى بَالُهُ مَشْغُولًا بِالْأَوَّلِ، بِخِلَافِ مَا إذَا لَمْ يَأْلَفْ مَكَانًا مُعَيَّنًا. (قَوْلُهُ: وَلَيْسَ لَهُ إلَخْ) قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: لَهُ فِي الْمَسْجِدِ مَوْضِعٌ مُعَيَّنٌ يُوَاظِبُ عَلَيْهِ وَقَدْ شَغَلَهُ غَيْرُهُ. قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: لَهُ أَنْ يُزْعِجَهُ، وَلَيْسَ لَهُ ذَلِكَ عِنْدَنَا اهـ أَيْ لِأَنَّ الْمَسْجِدَ لَيْسَ مِلْكًا لِأَحَدٍ بَحْرٌ عَنْ النِّهَايَةِ. قُلْت: وَيَنْبَغِي تَقْيِيدُهُ بِمَا إذَا لَمْ يَقُمْ عَنْهُ عَلَى نِيَّةِ الْعَوْدِ بِلَا مُهْلَةٍ، كَمَا لَوْ قَامَ لِلْوُضُوءِ مَثَلًا وَلَا سِيَّمَا إذَا وَضَعَ فِيهِ ثَوْبَهُ؛ لِتَحَقُّقِ سَبْقِ يَدِهِ تَأَمَّلْ". ( باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، مطلب في الغرس في المسجد، ١/ ٦٦٢)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201856
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن