بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پولیو ویکسین کے بارے میں سوالات


سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان جدید ویکسینیشنس(vaccinations)کے حوالے سے جو کہ بچوں کو دی جاتی ہیں،کیا یہ ویکسینیشنس واقعی بچوں کو مضر بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہیں؟یا پھر یہ چند در پردہ مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ بن چکا ہے؟ پچھلے دنوں کچھ ایسی تحقیقات نظروں سے گزریں جو کہ امید ہے کہ آپ کو اس مسئلے پر شرعی موقف قائم کرنے میں مدد فراہم کریں گی۔

پچھلے چند سالوں میں جب کہ مغرب میں حکومتی سطح پر بعض ویکسینز کا لگوانا لازم کر دیا گیا، تب سے وہاں کے ماہرین میں ایک بحث اٹھی،وہ یہ کہ کیا یہ ویکسینزحقیقتاً ہمیں کسی بیماری سے بچا بھی رہی ہیں یا الٹا ایک ایسی نسل کو پروان دے رہی ہیں جو کہ کمزور اور غیر صحت مند ہے؟ عموماً یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ ویکسینز مختلف امراض سے بچے کو محفوظ رکھنے کی غرض سے ان کے اجسام میں ایک قوتِ دفاعیہ پیدا کرتی ہے،اس قوت کے ذریعے بچہ چکن پاکس،میزلز اور اور دیگر بیماریوں کا شکار نہیں ہوتا،لیکن کچھ تحقیقات کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ بات شاید اتنی سادہ نہیں ہے۔مغرب میں ہی بعض ماہرینِ فن نے اس پورے پروگرام کی خوب مخالفت کی ہے اور اپنے ہی علم کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ویکسینز نہ صرف یہ کہ مفید نہیں ہیں، بلکہ بہت سی صورتوں میں ضرر کا بھی باعث بنتی ہیں۔ذیل میں تین ایسی تحقیقات کا خلاصہ پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ ان تمام مباحث کو سامنے رکھ کے ہمارے لیے شرعی موقف کی وضاحت فرمادیں۔

 پہلا نام ڈاکٹر اندریو ویکفیلد(Andrew Wakefield)کا ہے۔برطانیہ کے یہ طبیب اپنی اسی تحقیق کے باعث بہت معروف ہوئے جو انہوں نے ویکسینیشن پروگرام پر کی،ان کے مطابق ویکسینز کے کئی نقصانات ہیں اور اس کی وجہ سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں،ایک سروے سے معلوم ہوا کہ وہ بچے جو ویکسینیشن سے نہیں گزرتے زیادہ صحت مند اور ہوشیار ثابت ہوئے،مزید برآں وہ بچے جو اس پروگرام سے گزرے ہیں وہ نہ صرف طبی طور پر کمزور ، بلکہ بہت سی اعصابی بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔یہاں تک کہ انہوں نے تو آٹزم(autism)جیسی خطرناک بیماری کی بھی ایک وجہ ان ویکسینیشنز کو قرار دیا ہے،ان ڈاکٹر صاحب سے ایک انٹرویو لیا گیا جس میں انہوں نے اسی پروگرام کی قباحتیں بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتلایا کہ کس طرح ان ویکسینز نے natural herd immunity  یعنی ایک معاشرے کی فطری قوت مدافعت کو ختم کردیا،آپ کا فرمانا تھا کہ پہلے جب ایک لڑکی کو میزلز وغیرہ کی بیماری ہوتی تو خود بخود اس کے جسم میں میزلز کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی تھی،یہ ہی قوت وہ ماں بنتے وقت اپنے بچے کو منتقل کیا کرتی تھی جس کی وجہ سے وہ بچہ اپنی زندگی کے پہلے سال میں۔جب کہ اس کے اپنی کوئی قوت مدافعت نہیں ہوتی۔ان بیماریوں سے محفوظ رہتا تھا۔لیکن اب جب کہ اس کی والدہ نے بھی بچپن میں ویکسین کے باعث اس بیماری کا مقابلہ ہی نہیں کیا ،لہذا اس میں وہ قوت پیدا ہی نہیں ہوئی جس کو کہ وہ بچے میں منتقل کرتی۔اور اس طرح وہ بچہ اپنی زندگی کے پہلے سال میں نہ تو خود کسی بیماری کا دفاع کرسکتا ہےاور نہ ہی اس کے لیے اس کو اپنی والدہ سے کوئی مدد ملتی ہے۔یہ بات تو معلوم کے درجے میں ہے کہ ان ویکسینز کا اثر دائمی نہیں ہوتا،یعنی کچھ عرصے میں وہ زائل ہوجاتا ہے۔اسی وجہ سے وہ بیماریاں جو کبھی بچپن میں لاحق ہوا کرتی تھیں اب نوعمری میں ان کاسامنا ہوتا ہے۔مثلًا mumps کی بیماری پہلےبچوں میں عام مانی جاتی تھی۔لیکن ویکسینیشنز کے باعث اب بچے اس بیماری سے محفوظ رہنے لگے،البتہ اگر یہ ویکسینز کارگر نہ ہوں(یہ اپنی جگہ ایک مستقل بحث ہے)تو یہ بیماری نو عمری میں جا کر پیدا ہوتی ہے اور بچپن کے مقابلے میں کئی زیادہ مضر ثابت ہوتی ہے،یہ بھی بتلایا کہ کس طرح بہت سی ویکسینز ایک بیماری کا تو سد باب کرتی ہیں، البتہ اس سے زیادہ خطرناک بیماری کا سبب بھی ثابت ہوتی ہیں،انہوں نے چکن پاکس کی مثال دی کہ اس بیماری سے بچنے کے لیے جو ویکسین استعمال کی جاتی ہے اس کی وجہ سے ایک DNA Virus جسم میں پروان چڑھتا ہے اور آگے جاکر shingles نامی بیماری کا سبب بنتا ہے،یہ virus پہلے بھی جسم میں موجود ہوتا تھا، لیکن اس فطری قوتِ مدافعت کے باعث ضبط میں رہتا تھا،اب ویکسینز نے فطری قوت کو تو بالکل ختم کردیا اور اس virus کو پروان چڑھنے کا موقع مل گیا،اس پر مارکٹ کا طرز عمل بھی قابل غور تھا،بجائے اس کے کہ وہ اس ویکسین پروگرام پر نظر ثانی کرتے انہوں نے shingles کے لیے ایک نئی ویکسین بنا دی،جو کہ ان کے لیے مزید پیسے کمانے کا ذریعہ بن گئی۔لہذا ڈاکٹر اندریو کا ماننا ہے کہ ویکسینز کو لازم کرنے والے اس قانون کو منسوخ کر دینا چاہیے۔ان کے اسی موقف کے باعث برطانیہ کی حکومت نے ان کو اپنا پیشہ انجام دینے سے روک دیا ہے اور وہاں ان کو خوب مخالفت کا سامنا ہے۔لیکن وہ ابھی بھی اسی بات پر جازم ہے اور اسی لیے انہوں نے"vaxxed" کے نام سے ایک documentary بھی اسی موضوع پر بنائی ہے۔

 دوسرا نام Dr. John Piesse کا ہے۔آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے یہ طبیب بھی anti-vaccination کےخاصے حامی رہے ہیں اور ان کے اس فیصلے کی وجہ سے حکومت نے ان کی بھی خوب مخالفت کی ہے،یہاں تک کہ ان کو ان کا work-permit بھی منسوخ کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔انہوں نے اپنے پاس آنے والے مریضوں کا جب تجزیہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ جولوگ ویکسنییشن پروگرام سے گزرے ہوئے ہیں ان میں سے ۵۰ فیصد بہت زیادہ بیمار پڑتے ہیں۔نیز ۲ بچوں کی تو ویکسینیشن کے بعد موت بھی واقع ہوگئی اور اس کی کوئی واضح وجہ بھی نہ بتلائی گئی۔مزید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان ویکسینز میںmercury,ironاور carcinogenic viruses جیسے مضر اجزا بھی موجود ہوتے ہیں اور ان سے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔

 اسی سلسلے میں ایک نام Professor Anthony R Mawson کا بھی ہے۔امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھانے والے ان صاحب نے باقاعدہ ایک سروے کیا جس میں آپ نےhomeschooling سے گزرنے والے کچھ بچوں کا طبی data جمع کیا،ان میں ویکسینیشن پروگرام سے گزرنے والے بچے بھی شامل تھے اوروہ بچے بھی شامل تھے جو اس پروگرام سے بالکل بھی نہ گزرے تھے۔انٹرنیٹ پر اس سروے کے تفصیلی اعداد و شمار موجود ہیں۔ان کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ویکسینز کے ذریعے سے حقیقتاً بعض بیماریاں کم ہوگئیں، لیکن اس کے نتیجے میں بہت سی ایسی بیماریاں بھی تھیں جو کہ بہت زیادہ بڑھ گئیں،لہذا یہ کہنا اتنا آسان نہیں ہے کہ ویکسینیشنز کے ذریعے ایک صحت مند اور تندرست معاشرے کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے۔

یہ چند معلومات تھیں جو کہ امید ہے آپ کے لیے جواب دینے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔یہ موضوع اصلًا بہت تفصیلی ہے اور جانبین نے ایک دوسرے کے مواقف پر خوب تنقید بھی کی ہے۔لہذا برائے کرم آپ ہماری راہ نمائی فرمائیے اور اس پر شرعی موقف کی وضاحت فرمادیجیے۔

جواب

پولیو  یا اس جیسی دیگر  بیماریوں کی ویکسینز کے سلسلے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ یہ مضر صحت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی  ناپاک چیز ملی ہے تو ان کا پلانا جائز ہے، لہذا اس سلسلے میں دین دار ماہر ڈاکٹروں کی تصدیقات کی طرف رجوع کیا جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143906200062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں