بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پوری نماز میں کھڑا ہونے پر قادر نہیں


سوال

ایک شخص جو گھر سے چل کر مسجد آئے،  پہلی رکعت میں بقدرِ  ضرورت  پانچ سیکنڈ کا قیام  کر کے کرسی پر بیٹھ جائےاور باقی رکعتوں میں قیام نہ کر ے، ایسی نماز کا کیا حکم ہو گا؟ 

جواب

اگر مذکورہ شخص واقعۃً  بیمار ہے،  پوری نماز میں کھڑا نہیں ہوسکتا، کھڑے ہونے کی حالت میں گرنے یا بیمار ہونے یا بیماری میں اضافہ ہونے کا ڈر ہو یا بدن میں کہیں سخت درد شروع ہوجاتا ہو یا گھٹنے کا جوڑ کام نہ کرتا ہو  تو اس پر قیام فرض نہیں، ایسے شخص کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے، اور اگر تھوڑی دیر کے  لیے کھڑا ہوسکتا ہو  اور رکوع سجدے ٹھیک طریقے سے کرسکتا ہو تو اس صورت میں کھڑے ہوکر نماز شروع کرنا لازم ہوگا،اور جتنی دیر تک کھڑا ہوسکتا ہو کھڑا رہے اس کے بعد بیٹھ جائے، یہاں تک کہ اگر صرف تکبیر تحریمہ کہنے کی مقدار کھڑے ہونے کی قوت ہو تو کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہنا لازم ہوگا، پھر اس کے بعد جب کھڑے ہوکر نماز پوری کرنے کی طاقت نہ رہے تو بیٹھ کر باقی نماز پوری کرے۔

اور اگر یہ شخص زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس پر قیام فرض نہیں ہوگا، اس صورت میں ابتدا سے ہی بیٹھ کر نماز پڑھ لینی چاہیے۔

تاہم اگر مذکورہ شخص کی حالت ایسی ہو کہ پیدل چل کر مسجد  آنے کی وجہ سے وہ قیام پر قادر نہیں رہتا، لیکن اگر  پیدل چل کر نہ آئے تو گھر پر قیام کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے تو ایسےشخص کو گھر میں ہی قیام کے ساتھ نماز پڑھ لینی چاہیے۔ اگر گھر میں کوئی بچہ وغیرہ ہو تو اس کے ساتھ جماعت کرلے؛ تاکہ جماعت کا ثواب حاصل ہوجائے۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار (2 / 95):
"( من تعذر عليه القيام ) أي كله ( لمرض ) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضرر وبه يفتى ( قبلها أو فيها ) أي الفريضة ( أو ) حكمي بأن ( خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا ) أو كان لو صلى قائماً سلسل بوله أو تعذر عليه الصوم كما مر ( صلى قاعداً ) ولو مستنداً إلى وسادة أو إنسان؛ فإنه يلزمه ذلك على المختار ( كيف شاء ) على المذهب لأن المرض أسقط عنه الأركان فالهيئات أولى  وقال زفر: كالمتشهد، قيل: وبه يفتى، ( بركوع وسجود وإن قدر على بعض القيام ) ولو متكئاً على عصاً أو حائط ( قام ) لزوماً بقدر ما يقدر ولو قدر آية أو تكبيرة على المذهب؛ لأن البعض معتبر بالكل".

الدر المختار شرح تنوير الأبصار (1 / 446):
"ولو أضعفه عن القيام الخروج لجماعة صلى في بيته قائماً، به يفتى، خلافاً للأشباه".

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 446):
"(قوله: الخروج لجماعة ) أي في المسجد، وهو محمول على ما إذا لم تتيسر له الجماعة في بيته، أفاده أبو السعود ط  (قوله: به يفتى ) وجهه أن القيام فرض بخلاف الجماعة، وبه قال مالك والشافعي خلافاً لأحمد؛ بناء على أن الجماعة فرض عنده، وقيل: يصلي مع الإمام قاعداً عندنا؛ لأنه عاجز إذ ذاك ذكره في المحيط، وصححه الزاهدي شرح المنية. وثم قول ثالث مشى عليه في المنية، وهو أنه يشرع مع الإمام قائماً ثم يقعد، فإذا جاء وقت الركوع يقوم ويركع أي إن قدر، وما مشى عليه الشارح تبعاً للنهر جعله في الخلاصة أصح، وبه يفتى، قال في الحلية: ولعله أشبه؛ لأن القيام فرض فلايجوز تركه للجماعة التي هي سنة، بل يعد هذا عذراً في تركها ا هـ  وتبعه في البحر". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں