ایک بندے کے تین پلاٹس ہیں، ایک ان میں سے ایسا ہے جس کو نقد لیا تھا، وہاں آبادی کرنے میں فی الحال کچھ مسائل ہیں، دوسرے دو پلاٹوں میں ادائیگی بہت باقی ہے اور فی الحال ان کا تعین بھی نہیں ہواکہ میرا پلاٹ کون سا ہے، بہرحال بلڈر فائنل مل گیاہے، اب ایسے پلاٹوں کا مالک یا انویسٹر اگر مسائل ختم ہونے اور آبادی شروع ہونے تک اپنی نیت یہ رکھے کہ اگر یہ چیزیں ختم ہوئیں یعنی مسائل ختم اور آبادی شروع ہوئی تو بنادوں گا، کرایہ کے واسطہ، ورنہ بصورتِ دیگر فروخت کردوں گا، ایسے آدمی پر حولانِ حول کے بعد زکات واجب ہے کہ نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی یہ پلاٹ خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ اگر آبادی وغیرہ ہوگئی تو اس کو تعمیر کراکر کرایہ پر دے دوں گا، اور اگر یہ نہیں ہوا تو فروخت کردوں گا، تو چوں کہ مذکورہ پلاٹ خریدتے وقت ان کو فروخت کرنے کی حتمی نیت نہیں تھی،اس لیے یہ پلاٹ تجارتی مال میں شامل نہیں ہوں گے، اور اس پر زکات فرض نہیں ہے۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 168):
"(ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة) لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة) لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن