بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ اس نیت سے لیے کہ جب اچھی قیمت لگے گی تو بیچ کر رہائشی گھر بنائیں گے، اب زکاۃ کا حکم


سوال

میں سرکاری ملازم ہوں اور ایک سرکاری گھر میں بمع اپنی فیملی کے رہائش پذیر ہوں۔ میں نے گز شتہ سال اپنا ایک پلاٹ فروخت کیا جو کہ میں نے سن ۲۰۱۰ میں اپنی بیرونِ ملک تعیناتی سے واپسی پر خریدا تھا اور اس وقت نیت یہ کی تھی کہ جب اس کی قیمت اچھی ہو جاۓ گی تو اس کو فروخت کر کے اپنے لیے ذاتی گھر خریدوں گا ، جب میں نے یہ پلاٹ منافع کے ساتھ فروخت کر دیا اور اپنے ذاتی گھر کے لیے کو ششں شروع کر دی، لیکن ہماری پسند کی جگہیں کافی مہنگی تھیں جو کہ اس فروخت کردہ پلاٹ سے حاصل شدہ رقم میں خریدنی ممکن نہ تھیں؛ لہٰذا فیصلہ یہ کیا کہ اس رقم سے فی الحال ایسی جگہ پلاٹس لے لوں جہاں اس وقت قیمت نسبتاً کم ہے اور آئندہ آنے والے وقت میں قیمت بڑھنے کا چانس ہےـ

میری اس وقت بھی نیت یہی ہے کہ جب ان پلاٹس کی اچھی قیمت ملے گی تو میں ان کو فروخت کر کے اپنا ذاتی گھر خریدوں گا،  یعنی کسی بھی صورت میں ان پلاٹس سے کوئی کاروباری مفاد وابستہ نہیں ہے، بلکہ ان کو فروخت کر کے اپنا ایک ذاتی گھر رہائش کے لیے لینے کی نیت ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا مجھے ان پلاٹس کی زکاۃ ادا کرنی ہے؟ اور اگر کرنی ہے تو ان کی موجودہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ادا کروں گا؟ میں زکاۃ یکم رمضان کو نکالتا ہوں۔ اور یہ پلاٹس میں نے گزشتہ سال رمضان کے مہینہ سے پہلے لیےتھے، لہذا اگر زکاۃ  کی صورت ہو تو گزشتہ سال کی  زکاۃ کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

جو پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے لیا جائے ، یعنی پلاٹ خریدتے وقت یہ نیت ہو کہ مناسب دام ملنے پر  اسے فروخت کرکے  نفع کماؤں گا، پھر بعد میں اس رقم سے خواہ گھر بنانے کی نیت ہو یا مزید پلاٹ لینے کی، بہرصورت ایسا پلاٹ مالِ تجارت ہے، اور مالِ تجارت اگر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو سال گزرنے پر اس کی زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے پلاٹوں میں زکاۃ ادا کرتے وقت اس کی جو مارکیٹ ویلیو ہو اس کے مطابق زکاۃ ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ نے 2010 میں جو پلاٹ لیاتھا ، اگر اس کی ملکیت سے پہلے بھی آپ صاحبِ نصاب تھے تو جس تاریخ کو آپ کے دیگر قابلِِ زکاۃ اموال کی زکاۃ کی ادائیگی کا سال پورا ہوتاہو اس تاریخ کو مذکورہ پلاٹ اور اس کے بعد خریدکردہ پلاٹوں کی زکاۃ بھی ادا کرنا لازم ہوگی، اگر چہ اس وقت خاص ان پلاٹوں کی خریداری پر مکمل سال نہ بھی گزرا ہو۔ اور اگر آپ 2010 میں مذکورہ پلاٹ خریدنے سے پہلے سے صاحب نصاب نہیں تھےتو ایسی صورت میں جب  پہلا پلاٹ بیچنے کی نیت سے لیا تھا (بظاہر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہوگی) قمری تاریخ کے اعتبار سے ٹھیک ایک سال بعد آپ کی زکاۃ کا سال پورا ہوگا، اس وقت ان کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق سالانہ ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگی۔

اگر 2010 سےپچھلے سال تک پلاٹ کی زکاۃ ادا کرتے رہے ہیں تو صرف گزشتہ سال کی زکاۃ لازم ہوگی، اور اگر 2010 سے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی تو پہلے پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا کرنا بھی لازم ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 179)
' الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصاباً من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين۔ وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات'۔

وفیہ ایضاً:

 ' ومن کان له نصاب فاستفاد فی أثناء الحول مالاً من جنسه، ضمه إلی ماله وزکاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا، وبأي وجه استفاد ضمه'. الخ (هندیة، کتاب الزکاة ۱/۱۷۵ ط رشیدیة ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں