میں ایک پلاٹ خرید رہا ہوں، آفس سے قرض لیا ہوا ہے، پلاٹ میں میری نیت طے نہیں ہے، گھر بھی بنا سکتا ہوں یا کچھ سال بعد بیچ دوں گا، آیا اس پلاٹ پر زکات کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ پلاٹ کو خریدتے وقت حتمی طور پر تجارت کی نیت نہیں ہوگی، لہٰذا یہ پلاٹ تجارتی مال میں شامل نہیں ہوگا، اور اس پر زکات فرض نہیں ہوگی۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 168):
"(ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة)؛ لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة، (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200279
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن