بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پریشانیوں کا حل


سوال

زندگی میں جب چھوٹی بڑی پریشانیوں کے لیے دل گھبرانے لگے اور کام بنتے نظر نہ آرہے ہوں تو کیا کرنا چاہیے، جس سے دل مضبوط ہو اور اللہ کی رضا میں راضی ہو؟ براہِ کرم  تفصیلی راہ نمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں!

جواب

1- ”وَلَوْ أَ نَّ أَهْلَ الْقُرَیٰ أٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمآءِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنٰهُمْ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ“․(الاعراف:۹۶)

ترجمہ:”اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے؛ لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا“۔

یعنی ایمان اور تقویٰ( اعمالِ صالحہ) برکت وخوشحالی کا ذریعہ اور بُرے اعمال عذاب وپکڑ اور پریشانی کا سبب ہیں۔

2- ”وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّةً إِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاََتتََوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ“․(هود:۵۲)

ترجمہ:”اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو“۔

3- ”فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّه کَانَ غَفَّارًا، یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا، وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْهٰرًا“․(نوح:۱۲)

ترجمہ: ”تو میں نے کہا کہ گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک وہ بخشنے والا ہے، تم پر آسمان کی دھاریں (تیز بارشیں) برسائے گا اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں“۔

4- ”وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰه یَجْعَلْ لَّه مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبُ“․ (الطلاق:۲،۳)

ترجمہ:”اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا“۔

اس آیت میں تقویٰ کو نجات اور وسعتِ رزق کا سبب بتایا ہے اور اس کا عکس یہی ہے کہ نافرمانی اور گناہ‘ پریشانیوں میں گرفتار ہونے اور قلتِ رزق اورنعمت میں کمی کا سبب ہے۔

5-”ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ“․(الروم:۴۱)

ترجمہ: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“۔

6- ”وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ“․ (الشوریٰ:۳۰)

ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“۔

ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بآسانی سمجھ میں آرہاہے کہ: اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے“۔

7- ”وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً قَرْیَةً کَانَتْ أٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً یَّأْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بأَنْعُمِ اللّٰهِ فَأَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ“․(النحل: ۱۱۲)

ترجمہ:”اور بتائی اللہ نے ایک بستی کی مثال جو چین وامن سے تھے، چلی آتی تھی اس کی روزی فراغت سے ہرجگہ سے، پھر ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی، پھرمزہ چکھایا اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کے لباس کا“۔

مؐذکورہ آیات سے یہ باتیں مستفاد ہوئیں۔

  • عموما مصائب ، مشکلات کا سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔اور ” گناہ اور نافرمانی، نعمتوں میں کمی اور بدحالی کا سبب ہے“۔
  • نعمتوں اور برکات کے حصول کا طریقہ گناہوں سے توبہ، استغفار اور تقویٰ کو بیان فرمایا ہے۔
  • نیز  معلوم ہوا کہ گناہوں کا چھوڑنا اور توبہ کرنا مال واولاد کی کثرت اور خوشحالی کا سبب ہے۔
  • نیز ہر مشکل اور تنگی میں سے آسانی استغفار کی برکت سے ملتی ہے۔

مزید یہ کہ آزمائش انسان کے درجات کی بلندی کے لیے آتی ہیں اور اس سے انسان کو اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوجاتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں