بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پریشانی کے عالم میں بیوی چھوڑدی کے الفاظ کہنے کا حکم نیز الفاظ طلاق کے عدد میں شک کا حکم


سوال

میرے ایک عزیز نے پریشانی کی حالت میں اپنی دکان پر بیٹھ کر تنہائی میں زبان سے یہ الفاظ ادا کیے کہ: "میں نے دوکان بھی چھوڑی اور بیوی بھی چھوڑی" یہ الفاظ اس نے کاروبار میں سود کے پیسے کی شمولیت کے شک میں پریشان ہو کر کہے۔ میاں بیوی میں باہم کوئی جھگڑا بھی نہیں ہوا بس پریشانی میں الفاظ منہ سے نکلے ،پھر گھر آ کر اس نے بیوی کو بتایا کہ :مجھ سے یہ الفاظ ادا ہوئے ہیں ،شاید ان کی ادائیگی سے ہمارے درمیان جدائی ہو گئی ہے۔ بعد میں بیوی کمرے سے اپنے کپڑے لینے آئی تو اسے کہا کہ :میرے ہوتے ہوئے کمرے میں نہ آیا کرو ،یہ صرف اس ڈر سے کہا کہ کوئی کام خلاف شرع نہ ہو جائے۔

بیوی اور دوکان کو چھوڑ دینے کے الفاظ کی ادائیگی کا دو بار کا تو پختہ یقین ہے، لیکن تیسری بار کا پختہ یقین نہیں ہے۔ غالب گمان کبھی دو کی طرف جاتا ہے تو کبھی تین کی طرف شک کی کیفیت ہے۔ اس کے بعد مقامی مفتی صاحب سے ملاقات کی اور انہیں سارا مسئلہ بتایا اس ٹائم تیسری بار کا شک تھا ، تعداد کے بارے میں غالب گمان بھی نہیں تھا تو انہوں نے کہا کہ: طلاق رجعی واقع ہوئی ہے، لہذا جتنا جلدی ہو رجوع کر لیں ورنہ شیطان وساوس ڈالے گا ۔

شام تک دل میں یہی ڈر رہا کہ کہیں کوئی خلاف شرع کام نہ ہو جائے تو پھر یہ کیفیت بن گئی کہ کبھی غالب گمان دو کی طرف جاتا ہے کبھی تین کی طرف ،لیکن تیسری بار کا کنفرم نہیں ہو رہا ۔ لہذا آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ بہتر راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

 لفظ "چھوڑ دی " عرفاً  طلاق کے صریح   الفاظ کے حکم میں ہے،کما فی الشامیة: قوله: سرحتک وهو رها کردم؛ لأنه صار صریحًا فی العرف علی ما صرح به نجم الزاهدی․․․ فاذا  قال: رها کردم، أي سرحتک، یقع به الرجعي مع أن أصله کنایة أیضًا (شامی، کتاب الطلاق ) 

 لہذا صورت مسئولہ میں دو  طلاق رجعی و اقع ہوچکی ہیں ، ٍ عدت کے دوران رجوع کی گنجائش ہے،   آئندہ کےلیےشوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہے۔ 

الفاظ طلاق کے عدد میں شک کا حکم یہ ہے کہ: اگر عدد بھول چکا ہو تو خوب سوچ و بچار کرے ،جس نتیجے پر غالب گمان پہنچے وہی عدد شمارہوگا،اگر شک کی نوعیت ایسی ہو کہ فیصلہ نہ کرسکے اور متردد ہوکہ تو ایسی صورت میں  کم عدد جو کہ یقینی ہےاسی پر حکم محمول ہو گا۔ لہذا  جب دو اور تین کے درمیان شک ہے تو دو طلاق شمار ہوں گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143812200030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں