بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پراپرٹی خریدنے کے بعد واجب الاداء رقم پر زکات


سوال

میں نے  ایک پراپرٹی خریدی اپنے دو سالوں کے ساتھ شراکت کے طور پر ایک کروڑ پینتالیس لاکھ (۱۴۵۰۰،۰۰۰)روپے میں، ہم نے قسطوں میں ایک کروڑ دس لاکھ روپے فروخت کنندہ (بیچنے والے ) کو ادا کردیے، لیکن پھر اس نے آخری پیمنٹ (ادائیگی) وصول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ سودا منسوخ ہے، کیوں کہ آخری ادائیگی کے لیے جو تاریخ مقرر تھی اس سے ایک یا دو  دن اوپر ہو چکے تھے، چنانچہ ہم نے عدالت میں اس کے خلاف کیس دائر کردیا کہ ہم اس کو آخری ادائیگی کر کے پراپرٹی کا قبضہ لینا چاہتے ہیں ۔ ایک کروڑ دس لاکھ میں سے ترانوے لاکھ (۹۳۰۰،۰۰۰ ) روپے میرے دونوں سالوں نے برابر برابر ادا کیے ہیں اور میں نے سترہ لاکھ (۱۷۰۰،۰۰۰ ) روپے ادا کیے ہیں اور باقی مجھے ادا کرنے ہیں اور وہ میرے پاس ہیں، لیکن مجھے اکتیس لاکھ (۳۱۰۰،۰۰۰) روپے فیصلہ آنے کے بعد ادا کرنے ہیں، حتی کہ ابھی بھی اگر میرے سالے مجھ سے مطالبہ کریں کہ جتنی ادائیگی ابھی تک ہوئی ہے اس میں میں برابر کا حصہ ملاؤں تو مجھے ان کو  تقریبا بیس لاکھ (۲۰۰۰،۰۰۰ ) روپے ادا کرنے پڑیں گے جب وہ مطالبہ کریں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا جو پیسے میرے پاس اس جائیداد کی قیمت کی ادائیگی کے لیے پڑے ہیں ان  پر زکات آئے گی؟

جواب

 اگر معاہدے میں شرط تھی کہ وقتِ مقررہ پر مکمل ادائیگی نہ کی تو سودا منسوخ ہے۔تو معاہدہ منسوخ ہوچکا ہے۔آپ کاقانونی چارہ جوئی کرنا ناحق ہے۔ اورجو رقم رکھی ہے اورجو ادا کی ہے دونوں پر زکات واجب ہے۔

لیکن اگر معاہدہ میں ایسی کوئی شرط نہیں لگائی گئی تھی تو چوں کہ  آپ مذکورہ پراپرٹی خرید چکے ہیں؛ اس لیے  اس کی قیمت آپ کے ذمہ قرض ہے، لہٰذا جتنے پیسوں کی ادائیگی آپ کے ذمہ پر باقی ہے اس پر زکات واجب نہیں ہوگی،  البتہ اگر یہ پراپرٹی آپ نے تجارت اور نفع کمانے کی نیت سے خریدی ہے تو اس کی کل موجودہ قیمت پر زکات واجب ہوگی ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں