بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی مغصوبہ زمین


سوال

بعض تاریخی کتب اور تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً  پانچ سو سال قبل مؤجودہ سوات، بونیر، ملاکنڈ اور ہشت نگر وغیرہ کے علاقہ پر مشتمل ایک ریاست "ریاست سوات "کے نام سے قائم تھی۔ اور یہاں پر بسنے والے مسلمانوں کا تعلق سواتی قبیلہ سے تھا،  جنہیں آج بھی سواتی کہا جاتا ہے ،  یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ان علاقوں سے بدھ مت اورہندوؤں کا خاتمہ کیا اور ان علاقوں میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی۔تاریخ میں ان حکم رانوں کو سلاطینِ جہانگیری یا سواتی سلاطین کے نام سے یاد کیا جاتاہے، ان سلاطین کا تعلق سواتی قبیلہ سے تھا، اس ریاست کا دارالخلافہ موجودہ سوات کے ایک مشہور گاؤں منگلور میں تھا۔ سواتی سلاطین میں جو سلطان سب سے آخر میں گزرے ہیں اس کا نام سلطان اویس تھا، جس کی حکومت کا خاتمہ1520ء کو ایک مسلمان اورافغان قبیلہ یوسف زئی  کے ہاتھوں ہوا۔یوسف زئی  قبیلہ نے سوات پر حملہ کرکے وہاں پر بسنے والے سواتیوں کو شکست دی،  جس کے نتیجے میں سواتی قبیلہ کی اکثریت ہزارہ اور مانسہرہ جاکر آباد ہوئی، جب کہ ان میں سے بعض دیر بالا کے علاقہ نہاگ درہ چلے گئے اورجو رہے سہےسواتی تھے انہوں نے سوات ہی میں یوسف زئیوں کی اطاعت قبول کی اور محکوموں کی طرح سوات میں رہنے لگے۔ 

تفصیل "تاریخ افغانستان"  (بعد از اسلام) از عبدالحئی حبیبی، تزک جہانگیری، تذکرۃ الابرار والاشرار از اخوند درویزہ ؒ، یوسف زئی  پٹھان از اللہ بخش یوسفی، تواریخ حافظ رحمت خانی از پیر معظم شاہ، حواشی تواریخ حافظ رحمت خانی از خان روشن خان، تحقیق الافغان از سمیع اللہ جان مرحوم اور تاجک سواتی ومملکت گبرتاریخ کے آئینہ میں از پروفیسر محمد اختر" میں موجود ہے۔

اب  حسبِ ذیل امور کے بارے میں جواب مطلوب ہے:

 1: قبیلۂ سواتی اور قبیلۂ یوسف زئی دونوں مسلمان قبائل تھے،  اس  لیے یوسف زئیوں نے سواتیوں سے جو جائیدادیں اوراملاک قبضہ کیے وہ غصب شمار ہوں گے یا نہیں؟

2: اگر مذکورہ املاک غصب شدہ ہیں تو تقریباً پانچ سو سال گزرنے کے بعد یہ املاک مغصوبہ ہی شمار ہوں گے؟یا اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی مغصوبہ حیثیت بھی ختم ہوجائے گی؟

3: اگر مذکورہ املاک غصب کے حکم میں ہیں تو کیا اصل مالکان کو دوبارہ اس کی ملکیت کا دعویٰ کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟

4: غاصب کے لیے شریعت میں کیا دنیوی اور اخروی سزا مقرر ہے؟ بالخصوص دنیوی سزا کے بارے میں شرعی نکتۂ نظر تفصیلاً اور مدلل بیان فرمائیں۔

5: اگر مذکورہ املاک مغصوبہ ہیں تو ان سے حاصل شدہ آمدنی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

6: مغصوبہ زمین پر طاعات اور عبادات سے متعلق شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

سائل کی ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یہ ایک دیرینہ تاریخی قضیہ ہے ، جس کا تصفیہ متاثرہ طبقہ کے آباء واجداد سے لے کر آج تک نہیں کیا گیا ،اس لیے دو بنیادوں پر اس قضیہ میں رائے اور فیصلہ مشکل ہے :

1- اس دیرینہ قضیہ کی موجودہ زمانے میں پڑتال سے کئی مفاسد جنم لے سکتے ہیں ۔

2- اگر مدعی طبقہ کو حق دار بھی سمجھ لیا جائے تو اتنا طویل زمانہ گزرنے کے بعد ان کا ایسا دعوی قابلِ سماعت شمار نہیں ہوتا۔

بایں ہمہ اگر کوئی اپنی کسی بھی ملکیت کا شرعی اور تاریخی ثبوت رکھتا ہو تو وہ متعلقہ اداروں اور عدالتوں سے رجوع کرسکتا ہے۔ فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143807200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں