بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیکس ادا کرنے کے لیے پرائز بانڈ خریدنا


سوال

درج ذیل سوال وجواب کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت فرمادیں:

سوال: میں نے پڑھا تھا کہ حکومت کا عوام پر غیر ضروری ٹیکس لگانا حرام ہے اور عوام کا ان ٹیکس سے بچنے کے لیے حیلے بہانے کرنا درست ہے اگر کوئی ٹیکسیشن کا ماہر ان کو ظلم قرار دے۔  توآج کل اس ظالمانہ ٹیکس سے بچنا ناممکن ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم پرائزبونڈ کے انعام سے ملنے والی رقم سے ٹیکس ادا کر سکتے ہیں؟ کیوں کہ پرائزبونڈ حرام ہیں تو کیا ہم اگر خود پرائزبونڈ کی انعامی رقم استعمال نہ کریں، بلکہ حکومت سے ہی لے کرحکومت کو ہی ٹیکس کی مد میں ادا کر دیں تو کیا ایسا کر سکتے ہیں؟(عبدالرؤف)

جواب: آپ کا یہ نظریہ درست نہیں کہ پرائز بانڈ حرام ہیں، اس لیے اُن پر حاصل ہونے والا انعام ٹیکس کی مَد میں دینا چاہیے ۔ انعامی بانڈز کی خرید وفروخت اور ان پر ملنے والاانعام جائز ہے، بانڈ پر درج قیمت پر خرید وفروخت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے، البتہ اس کی انعامی رقم کے جواز پر علماء کا اختلاف ہے۔ ہمارے علماءِ اہلِ سنت وجماعت کے نزدیک یہ انعامی رقم لینا جائز ہے،اس میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔یہ اختلاف فقہی دلائل کی بنیاد پر ہے، یہ مسلکی نوعیت کا اصولی یااعتقادی اختلاف نہیں ہے۔ ہر دور کے نئے پیش آنے والے مسائل ’’مجتہَدفیہ‘‘ہوتے ہیں ،یعنی جن پراُس عہد کے اہلِ فتویٰ اور اہلِ علم کو شرعی دلائل کی روشنی میں جواز یا عدمِ  جواز کا حکم لگانا ہوتا ہے۔ بعض اوقات علماء کی فقہی آراء اِن کے بارے میں مختلف ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں عام مسلمانوں کو میر امشورہ یہ ہوتا ہے کہ جن علماء کی فقاہت ، اجتہادی اہلیت اور علمی دیانت پر انہیں زیادہ اعتماد ہے، اُن کی رائے پر عمل کریں۔لیکن یہ ترجیح دین داری اور آخرت کی جواب دہی کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ محض خواہشِ نفس کی اِتباع کی جائے۔ ان بانڈز کا اجرا حکومتِ پاکستان کرتی ہے، بینک نہیں کرتے ،وہ صرف ان کی خریدوفرخت کے لیے ایجنٹ کا کام کرتے ہیں، اِس میں کوئی سودی معاہدہ بھی شامل نہیں ہے ، نہ مشروط اور نہ معہود۔یہ اختلاف ربوٰ کی حرمت میں نہیں ہے، کیوں کہ ربوٰ کی حُرمت تو قطعی ہے،بلکہ اس امر میں ہے کہ انعامی بانڈز پر دیا جانے والا انعام سود ہے یا نہیں ۔جن علماء نے اسے حرام قرار دیا ، انہوں نے اسے سود اورقمار کہا ہے ۔ ہمارے نزدیک ان کا یہ فتویٰ دلائل کی بنیاد پر درست نہیں ہے۔اس مسئلے پر تفہیم المسائل کی جلد : چہارم میں ہم لکھ چکے ہیں اور اگر کسی کو مزید تفصیلی دلائل سے آگہی مطلوب ہو تو علّامہ غلام رسول سعیدی کی شرح صحیح مسلم ، علّامہ مفتی وقار الدینؒ کی وقار الفتاویٰ اور مفتی رفیق حسنی کی رفیق الفقہاء کا مطالعہ فرمائیں ۔ہم اس پر ایک بار پھر مُدلل ومفصل موقف تحریر کریں گے،لیکن اخبارات کے کالم اس کے متحملنہیں ہوسکتے۔

جواب

ظالمانہ ٹیکس سے بچنے کے لیے حلال اور جائز طریقہ اپنا نا درست ہے، ناجائز اور حرام کام کو ذریعہ  بنانا جائز نہیں ،لہذا  ٹیکس سے بچنے کے  لیے مذکورہ بالا صورت اختیار کرنا جائز نہیں ۔

جہاں تک پرائز بونڈ کےمنافع کا تعلق ہے ، تو اس پر  حاصل ہونے والے منافع سود اور حرام مال کے زمرے  میں آتے ہیں ، جس  کی وضاحت مختصر یہ ہے :

’’پرائز بانڈز میں سود کا وجود تو بالکل ظاہر ہے؛ کیوں کہ سود کی حقیقت یہ  ہے کہ مال کا مال کے بدلے معاملہ کرتے وقت ایک طرف ایسی زیادتی مشروط ہو جس کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو،بعینہ یہی حقیقت بانڈز کے انعام میں بھی موجود ہے، کیوں کہ ہر آدمی مقررہ رقم دے کر پرائزبانڈز اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس سے قرعہ اندازی میں نام آنے پر اپنی رقم کے علاوہ  زیادہ رقم مل جائے، اور یہ زائد اور اضافی رقم سود ہے؛ کیوں کہ شر یعت میں ایک جنس کی رقم  کاتبادلہ اگر  آپس میں  کیا جائے تو برابری کے ساتھ لین دین کرنا ضروری ہوتا ہے، کمی بیشی کے ساتھ لین دین کرنا سود ہے، اسی طرح سود کی ایک اور حقیقت جو قرآنِ  کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی سمجھی جاتی تھی  وہ یہ تھی کہ قرض دے کر اس پر نفع لیاجائے،سود کی یہ تعریف ایک حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے ”کل قرض جر منفعةً فهو ربوایعنی ہر وہ قرض جو نفع کمائے وہ سود ہے،  لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ جو زیادتی قرض کی وجہ سے حاصل ہوئی ہووہ بھی سود میں داخل ہے، اور سود کی یہ حقیقت بانڈز کے انعام پر بھی صادق آتی ہے؛ کیوں کہ  بانڈز کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے ،  حکومت اس قرضہ کو استعمال میں لاتی ہے اور قرضہ کے عوض لوگوں سے ایک مقررہ مقدار میں انعام کا وعدہ کرتی ہے اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے انعامی رقم  کے نام سے سود کی رقم لوگوں میں تقسیم کردی جاتی ہے، جو ناجائز اور حرام ہے۔

اسی طرح پرائزبانڈ ز  میں جوا بھی شامل ہے ، "جو ا" جسے عربی زبان میں’’قمار‘‘ کہا جاتا ہے در حقیقت ہر وہ معاملہ ہے جس میں’’مخاطرہ‘‘ ہو، یعنی قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد  پرہو، اورپرائزبانڈز کے حصہ داران زائد رقم وصول کرنے کی غرض سے رقم جمع کراتے ہیں، لیکن معاملہ قرعہ اندازی اور اس میں نام آنے پر مشروط ہونے کی وجہ سے یہ لوگ خطرے میں رہتے ہیں کہ زائد رقم ملے گی  یانہیں، اس سے واضح ہوا کہ  پرائز بانڈز جوئے اور سود کا مجموعہ ہے ، لہذا پرائز بانڈ ز کی خریدوفروخت کرنااور اس سے ملنے والا انعام حاصل کرنا شریعت کی رو سے  ناجائز اور حرام ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں