بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیلی نار ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں ۱۰۰۰ روپے رکھنے پر ملنے والے ۵۰ فری منٹس استعمال کرنے کا حکم


سوال

ٹیلی نار موبائیل نیٹ ورک کمپنی نے ایک سہولت متعارف کروا ئی ہے کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ بنا کر اس میں 1000 روپے جمع کرا دیں اور ہر دن 50 فری منٹ حاصل کریں جب تک یہ رقم آپ کے اکاؤنٹ میں رہے  گی  آپ کو یہ سہولت فری منٹ ملتے رہیں گے،  اور جب آپ اپنی رقم نکلوائیں گے فری منٹ ملنے بند ہوجائیں گے۔  اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا یہ 50 فری منٹ جو 1000 روپے صرف اکاؤنٹ میں رکھنے کے بدلہ میں ملتے ہیں یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتے ؟

جواب

واضح رہے کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے، اور  احادیث کی روشنی میں یہ ضابطہ بھی مسلم ہے کہ   قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، بعض احادیث میں اسے صراحتاً ’’ربا‘‘  کہا گیا ہے اور بعض صحیح احادیث میں اسے ’’ربا‘‘  میں شامل کیا گیا ہے؛ اس لیے  ٹیلی نار ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانا اور اکاؤنٹ ہولڈر کا  قرض کے بدلے کمپنی  کی طرف سے دی جانے والی سہولیات وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔   

"عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ، إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ فَإِنَّهُ رِبًا ". ( صحیح البخاری 3814)
ترجمہ: سعید بن ابی بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ حاضرہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ، انہوں نے کہا:  کیا آپ (ہمارے پاس) آئیں گے تاکہ میں آپ کو  ستواورکھجورکھلاؤں اورآپ ایک ( باعظمت ) مکان میں داخل ہوں (جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے)  پھر آپ نے فرمایا: تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں، اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اورپھروہ تمہیں ایک تنکے یاجوکے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابربھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا؛ کیوں کہ وہ بھی سود ہے۔

مصنف ابن أبي شيبة (4/ 327):
"عن إبراهيم، قال: «كل قرض جر منفعة، فهو ربا»".  
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں