بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹکٹ بکنگ پر اجرت لینا


سوال

میں نے آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا ہے وہ یہ ہے کہ میں پاکستان ریلوے کی ایپ سے لوگوں کو آن لائن سیٹیں بک کرکے دیتا ہوں. جب میں لوگوں کو آن لائن سیٹیں بک کر کے دیتا ہوں تو میں ان سے ہر سیٹ کی مقررہ قیمت سے 20 روپے اضافی وصول کرتا ہوں، یہ سوچ کر کہ(میں انٹرنیٹ کا پیکج کرتا ہوں تو میرے اس میں پیسے لگتے ہیں اور میری محنت اور میرا وقت لگتا ہے سیٹیں بک کرنے اور سیٹیں تلاش کرنے میں کہ سیٹیں پڑی ہیں یا نہیں گاڑی میں) اور جب میں لوگوں سے اضافی 20 روپے لیتا ہوں تو میں لوگوں کو بتا دیتاہوں کہ سیٹ کے اتنے پیسے ہیں اور میں آپ سے 20 روپے اضافی لے رہاہوں,تو وہ مجھے خود 20 روپے دے دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں.

اب میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ میں جو لوگوں سے اضافی 20 روپے وصول کرتا ہوں فی سیٹ کے وہ میرے لیے جائز ہیں یا نہیں یعنی میں 20 روپے اضافی لے سکتا ہوں یا نہیں؟

اور اگر 20 روپے اضافی لینا جائز ہے تو کیا میں لوگوں کو بغیر بتائے بھی 20 روپے اضافی لے سکتا ہوں یا نہیں؟ 

اس سوال کا جواب آسان اور تفصیل سے دیجیے گا؛ تاکہ مجھے سوال کا جواب آسانی سے سمجھ آسکے اور اس سوال کے جواب میں آپ جو حوالہ اور فتویٰ دیں اس کی عربی کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی ساتھ ہو تاکہ مجھے جواب آسانی سے سمجھ آجائے!

جواب

صورتِ مسئولہ میں ٹکٹ بکنگ کرنے کی خدمت فراہم کرنے پر  اگر آپ پہلے سے  حق الخدمت طے کرلیتے ہیں یا حق الخدمت سے متعلق آپ نے دکان پر لکھ کر لگا دیا ہے تو ایسی صورت میں حق الخدمت وصول کرنا آپ کے لیے درست ہوگا۔ فتاوی شامی میں ہے:

"قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ، فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ..." الخ ( مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"لا فَرْقَ لُغَةً بَيْنَ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ، وَقَدْ فَسَّرَهُمَا فِي الْقَامُوسِ بِالْمُتَوَسِّطِ بَيْنَ الْبَائِعِ وَالْمُشْتَرِي، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا الْفُقَهَاءُ، فَالسِّمْسَارُهُوَ مَا ذَكَرَهُ الْمُؤَلِّفُ، وَالدَّلَّالُ هُوَ الْمُصَاحِبُ لِلسِّلْعَةِ غَالِبًا أَفَادَهُ سَرِيُّ الدِّينِ عَنْ بَعْضِ الْمُتَأَخِّرِينَ ط وَكَأَنَّهُ أَرَادَ بِبَعْضِ الْمُتَأَخِّرِينَ صَاحِبَ النَّهْرِ، فَإِنَّهُ قَالَ وَفِي عُرْفِنَا الْفَرْقُ بَيْنَهُمَا هُوَ أَنَّ السِّمْسَارَ إلَخْ... وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ". (ه/ ١٣٦)فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144001200776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں