بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹڈی کی کون سی قسم حلال ہے؟


سوال

احادیثِ مبارکہ سے ٹڈی کا حلال ہو نا معلوم ہوتا ہے۔کیا اس حلت کے حکم سے ٹڈی کی کوئی قسم مستثنیٰ ہے؟ بعض لوگوں کو کہتے سنا کہ گھروں میں پائی جانے والی ٹڈی حلال نہیں اور احادیث میں جس ٹڈی کا ذکر ہے وہ دوسری چیز ہے۔کیا یہ بات درست ہے؟

جواب

علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب نیل الاوطار میں ابن العربی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جراد کی دو قسمیں ہیں، ایک حجاز کی ٹڈیاں اور دوسری اندلس کی ٹڈیاں، پھر اندلس کی ٹڈیوں سے متعلق لکھا کہ اس کو نہیں کھایا جائے گا؛  اس لیے کہ اس کے کھانے میں ضررِ محض ہے، اس لیے اس کا کھانا درست نہیں، لہذا ٹڈی کی  جس قسم میں ضرر ہو  اس کو نہیں کھایا جائے گا، باقی کو کھایا جاسکتا ہے، البتہ احادیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں مل سکی۔  نيل الأوطار (8/ 169):
"ونقل النووي الإجماع على حل أكل الجراد. وفصل ابن العربي في شرح الترمذي بين جراد الحجاز وجراد الأندلس، فقال في جراد الأندلس: لايؤكل؛ لأنه ضرر محض، وهذا إن ثبت أنه يضر أكله بأن يكون فيه سمية تخصه دون غيره من جراد البلاد تعين استثناؤه".

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9/ 415):
"والحديث يدل أيضًا على جواز أكل الجراد مطلقًا وقد حكى غير واحد من أهل العلم الإجماع على إباحة أكله، لكن فصل ابن العربي في شرح الترمذي بين جراد الحجاز وجراد الأندلس، فقال في جراد الأندلس: لايؤكل؛ لأنه محض، وهذا إن ثبت أنه يضر أكله بأن يكون فيه سمية تخصه دون غيره من الجراد البلاد تعين استثناؤه، كذا في الفتح". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں