بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹریول ایجنسی میں کام کی ایک صورت کا حکم


سوال

 1. ٹریول & ٹورز (حج و عمرہ و دیگر ٹورزم) کا کام کرنا کیسا ہے؟

2. نومبر ٢٠١٦ سے میں نے اپنے محلے کے قریبی ساتھی (عبدالوہاب بھائی) کے ساتھ جن کی ٹریول ایجنسی ہے جس میں حج و عمرہ و دیگر کام ہوتے ہیں اور وہ ٢٠١٠ سے یہ خدمت انجام دے دہے ہیں۔ ان کے ساتھ حج و عمرہ کا کام سیکھنے کے ارادے سے ان کے آفس میں کام شروع کیا،  گزشتہ سال حج سے پہلے ان سے کام کے حوالے سے بات چیت ہوئی اور ان کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جس پر انہوں نے بھی رضامندی ظاہر کی لیکن ابتداءً  کوئی  معاملات طے نہیں ہوئے تھے کہ میں ان کے ساتھ کس حیثیت سے کام کروں گا۔ اس وقت ارادہ یہ تھا کہ ان کے ساتھ ایک سال میں کام سیکھ کر اپنا ذاتی کام شروع کروں گا،  لیکن بعد میں مدرسہ کی پڑھائی اور دیگر مشغولیات کی وجہ سے ارادہ یہ ہوا کہ پڑھائی  کے زمانے تک تو ساتھ کام کروں پھر فراغت کے بعد مشورہ کرکے آگے شروع کروں، اس پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں. جب میری طرف سے دسمبر میں پہلا گروپ عمرہ پر گیا تو اس میں ١٢ ہزار روپے کا نفع ہوا، اس پر میں نے مکمل رقم انہیں پیش کرکے کہا: آپ سے کام سیکھا ہے، آپ کا زیادہ حق ہے، آپ جو دیں گے منظور ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ آپ کا پہلا کام ہے یہ پوری رقم (١٢ ہزار) آپ رکھ لو،  آئندہ جو بھی ہوگا اس میں ٥٠ ٥٠ فیصد کرلیں گے۔ اس وقت میری حیثیت نہ ان کے ساتھ شریک کی ہے، کیوں کہ میری کوئی انویسٹمنٹ نہیں) اور نہ ملازم کی ہے (کیوں کہ میری کوئی  تنخواہ مقرر نہیں ہے) اس کے باوجود صرف تعلق کی بنیاد پر انہوں نے مجھے اپنے آفس کی تمام تر چیزیں استعمال کرنے کا مکمل اختیار دے رکھا ہے۔ میں ان کے آفس میں ان کی جگہ، آفس کی چیزیں استعمال کررہا ہوں اور ان کی طرف سے اس پر کسی معاوضے کا بھی مطالبہ نہیں، اس کے علاوہ میرے لیے آفس آنے جانے کا بھی کوئی وقت متعین نہیں، نہ میں کسی کام کا پابند ہوں۔ اگر بغیر اطلاع بھی نہ جاؤں تو کوئی  سوال نہیں، لیکن اکثر اوقات نہ جانے پر اطلاع کردیتا ہوں۔ نماز کے معاملے میں وہ بھی پابند ہیں؛ اس لیے الحمدللہ نماز کے اوقات کی بھی پابندی رہتی ہے اور امتحان، جائزے اور دیگر مدرسہ کی مشغولیت میں بھی چھٹی پر ان کی طرف سے کوئی  پابندی نہیں ہے۔ بحیثیت طالب علم وہ اور دوسرے آفس کے ساتھی بھی عزت و اکرام کرتے ہیں۔ اب آئندہ سال کے لیے انہوں نے عمرہ کا کام میرے اور ایک دوسرے آفس کے ساتھی کے حوالے کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے کہ اب کام کچھ سمجھ آگیا ہے تو اب ہم براہ راست کام کریں۔ اس کے علاوہ حج کے کام میں بھی میری کوئی شرکت نہیں ہے، لیکن اس سال جو حاجی میرے توسط سے جائیں گے تو ان سے حاصل شدہ نفع میں بھی مجھے متعین حصہ دیا جائے گا جو اب تک بیان نہیں کیا گیا، نہ میں نے ان سے کسی نفع کا مطالبہ کیا۔ تو یہ منافع کس عوض میں ہوگا اور کیا یہ لینا میرے لیے جائز ہے؟ ابتداءً حج و عمرہ کا کام ساتھ کرنے کی بات ہوئی تھی، لیکن ٹریول ایجنسی میں اور بھی کام ہوتے ہیں، مثلاً دبئی ٹورز، ویزہ اور بیرون و اندرون ممالک کے ٹکٹ وغیرہ۔  اگر وہ میری محنت سے جاری ہوں یا میں حج و عمرہ و دیگر ٹورزم کے کام ہوٹل وغیرہ کی عدم موجودگی یا ریٹ میں فرق کی وجہ سے دوسرے ٹور آپریٹرز سے کرواتا ہوں تو اس سے حاصل شدہ نفع میں بھی شرکت ہوگی یا مکمل نفع میرا ہوگا؟

خلاصہ سوال یہ کہ میں محض کام سیکھنے کے لیے وہاں ہوں،  ملازمت کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ مالکان نے پہلی مرتبہ میں میرے کام سے حاصل ہونے والے نفع کو مجھے ہی دے دیا تھا اور پھر آئندہ میرے کام سے حاصل ہونے والا نفع آدھا آدھا کرنے کا کہا۔ براہ کرم تفصیلی طور پر بتادیں کہ مکمل نفع یا یا نفع کی یہ شرکت کس اعتبار سے ہے اور آئندہ  کے لیے معاملات کس طور پر طے کیے جائیں؟ اور اگر کوئی  معاہدہ کریں تو اس کی شرعی اعتبار سے کیا صورت ہوگی؟

جواب

ٹریول ایجنسی کا کام اگر شرعی حدود و قیود کی رعایت کے ساتھ کیا جائے تو یہ کام کرنا شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔

آپ نے چوں کہ اب تک اس کاروبار میں کوئی انویسمنٹ نہیں کی ہوئی ، اس لیے  آپ اب تک اس کاروبار میں شریک نہیں اور نہ آپ بطورِ شریک اس کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع کے حق دار ہیں،  البتہ اگر آپ اسی دفتر میں کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کمیشن پر کام کریں یعنی آپ کے ذریعہ ادارے کی جتنی سیل ہو گی اُس کے منافع میں سے ایک طے شدہ فیصد آپ کے لیے متعین ہو ، یہ صورت اختیا کرنا  شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143810200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں