بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹریفک قوانین پر چالان کا حکم


سوال

 احناف کے نزدیک مالی جرمانہ ٹھیک نہیں ہے تو پاکستان میں جو ٹریفک قوانین پر چالان لیا جاتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

بلاشبہہ فقہائے احناف کے فتوے کے مطابق مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے؛ لہٰذا قابلِ تنبیہ جرائم کے لیے ایسا مناسب متبادل تجویز کرنا چاہیے جس کی شریعت میں گنجائش ہو۔ مثلاً: ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی  پر تنبیہ کے لیے یہ ضابطہ بنادیا جائے کہ مقررہ تنبیہات کے بعد بھی خلاف ورزی ہو تو اس کا لائسنس  کالعدم قرار دیا جائے، اور کالعدم لائسنس کی تجدید کے لیے فیس بڑھادی جائے تو اس صورت کی گنجائش ہوگی۔

"ولایکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذهب". (مجمع الأنهر، کتاب الحدود / باب التعزیر ۱؍۶۰۹ بیروت)
"وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کانت في ابتداء الإسلام ثم نسخ". (البحر الرائق /باب التعزیر41/5 )
"والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال". (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ )
"لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي". (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ )

’’در مختار‘‘ میں ہے: 

’’لا بأخذ مال في المذهب. بحر. وفیه عن بزازیة: وقیل: یجوز، ومعناه أن یمسکه مدة لینزجر، ثم یعیده له، فإن أیس من توبته یصرفها إلی ما یری. وفي المجتبی: أنه کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ ‘‘. (الدر المختار مع الشامیة: ۱/۳۲۶) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں