بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ولدیت کی تبدیلی


سوال

میرے والدین میرے بچپن کے زمانے میں بوجہ طلاق علیحدہ ہو گئے تھے۔ اس کے بعدمیری والدہ نے نیا نکاح کر لیا اور لاعلمی اور معاشرتی رواج کے مطابق میری والدہ نے نئے شوہر کا نام میری ولدیت میں لکھوا دیا گیا۔ظاہر ہے جس سے مَیں بری الذمہ ہوں۔ اس کے بعدسے آج تک تعلیمی اسناد ، ڈگریوں اور شناخی کارڈ پر بھی میرے اسی والد کا نام درج ہے جو درحقیقت میرا باپ نہ تھا ،بلکہ سرپرست تھا۔ میرے سرپرست والد ایک سرکاری ملازم تھےاور کاغذی اعتبار سے میں ان کا بیٹا تھا۔ دورانِِ ملازمت ان کی وفات ہو گئی اور میں ڈیتھ کوٹہ میں ان کی جگہ بھرتی ہو گیا اور اب ملازمت کو بھی تقریباً تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔نیز اسی دوران میرے حقیقی والد بھی انتقال کر گئے۔

اب آکر مجھے اس شرعی مسئلے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہﷺ نے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔ اس ساری صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے علمائے کرام و مفتی حضرات درج ذیل سوالات کا کیا جواب دیتے ہیں؟

1. مجھے اس صورتِ حال میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟

2. ڈگریوں اور اسناد وغیرہ کے نام کی تبدیلی ایک مشکل امر ہے جس کی سائل میں سکت نہیں ہےجب کہ میرے اصل والد کے کاغذات(ڈیتھ سرٹیفکیٹ وغیرہ) تک میری رسائی ممکن نہیں یا کم از کم مشکل ضرور ہے۔

3. نیز ایسا کرنے سےمیں نہ صرف ملازمت سےمحروم ہو جاؤں گا، بلکہ پاکستانی قانون کے مطابق پچھلے تین سال کی ریکوری کے ساتھ ساتھ قانونی جرم سرزد ہونے  کی وجہ سے میرے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جاسکتاہے۔

4. میری اس تنخواہ (جو مجھے ایک ایسے شخص کے سہارے ملی جو میرا باپ نہ تھا)کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟

برائے مہر بانی قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیجیے؛ تاکہ میں ذہنی کشمکش سے نکل سکوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دے۔ آمین 

جواب

۱۔اپنے آپ کو حقیقی ولدیت کی طرف منسوب  کرکے لکھنا اورپکارنا چاہیے۔

۲۔۳۔جن اسناد میں تبدیلی ممکن ہے ان میں تبدیلی کےلیے حتی المقدورکوشش لازم ہے اورجن میں ممکن  نہیں یا فی الحال سکت نہیں ہے ،ان میں استطاعت  کے حصول تک ندامت کے ساتھ تاخیر کی گنجائش ہے۔

۴۔تنخواہ کاتعلق اہلیت اورخدمت کی انجام دہی کے ساتھ ہے،اگراہلیت ہے اورمفوضہ خدمت انجام دیتےہیں تو تنخواہ حلال ہے۔

سائل کو چاہیے کہ قانونی امور کے حوالے سے کسی ماہر دین دار وکیل سے مشورہ کرلے، امید ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں معاشی پریشانیپیش نہیں آئے گی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں