بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف میں تبدیلی کرنا


سوال

 ہمارے ہاں ایک صاحب نے مدرسہ کے لیے ایک جگہ وقف کی، مگر کئی سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس جگہ مدرسہ بن نہیں سکا اور نہ ہی قریب قریب کوئی امکان ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس جگہ کو کسی اور مصرف مثلاً جنازہ گاہ یا قبرستان وغیرہ میں تبدیل کرنا واقف کی اجازت اور مرضی سے درست ہے کہ نہیں ؟ اور کیا اس جگہ کو فروخت کر کے اس کی قیمت کسی دوسرے مدرسہ میں دے سکتے ہیں یانہیں؟

جواب

اگر کوئی زمین مدرسہ کے لیے وقف کردی گئی، اور متولی یا ذمہ داران کے حوالہ کردی گئی، تو یہ زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی گئی، وقف مکمل ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں، خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں ردوبدل کرنا جائز نہیں، ہاں اگر اس نے وقف کرتے ہوئے ضرورت کے وقت وقف کی جہت تبدیل کرنے کی شرط لگائی تھی تو اب وہ جہتِ وقف میں تبدیلی کرسکتا ہے ورنہ نہیں ۔"الفقہ الاسلامی وادلتہ" میں ہے:

" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته " ۔ (الفقه الاسلامی وادلته ۱۰/۷۶۱۷ ، الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف) فقط واللہ ا علم


فتوی نمبر : 143908200162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں