ایک مکان جو مسجد کی ضروریات کے لیے وقف ہوا وہاں امام صاحب کی رہائش اور ایک دوکان بنائی گئی۔کچھ عرصہ قبل دوکان ایک خاتون نے کرائے پر لی اور وہاں بیوٹی پارلر کھول لیا۔اس وقت انتظامیہ وغیرہ نے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی۔ مکان کی خستہ خالت کی وجہ سے دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ تعمیر کے بعد کیا وہ خاتون دوبارہ وہاں بیوٹی پارلر کھولنا چاہتی ہیں۔ اس بارے میں درج ذیل سوالات پر شرعی حکم معلوم کرنا ہے:
1. کیا مسجد انتظامیہ یہ دوکان بیوٹی پارلر کے لیے کرائے پر دے سکتی ہے؟ اور اگر ان شرائط کے ساتھ کرائے پر دی جائے کہ وہاں غیر شرعی کام نہیں ہو گا، جیسے خواتین کے بال کاٹنا، بھویں کاٹناوغیرہ ، تو کیا گنجائش نکل سکتی ہے؟ ویسے شرائط کی پابندی کے لیے صرف ان پر اعتماد کیا جائےگا انتظامیہ اس کومانیٹر نہیں کر پائےگی۔
2. ان دونوں صورتوں میں بیوٹی پارلر کا کرایہ مسجد کے لیے کیسا ہے؟ اور اگر شرعی طور پر بیوٹی پارلر بنانا ٹھیک نہ ہو اور پھر بھی مسجد انتظامیہ دوکان بیوٹی پارلر کے لیے کرائےپر دے تو کیا گناہ کی صورت ہو گی؟
اگر بیوٹی پارلر جائز امور کی حد تک محدود ہویعنی وہاں کاماحول غیر شرعی نہ ہو،مردوں سے اختلاط نہ ہو، پارلر صرف عورتوں کی جائز زیب وزینت کے لیے مختص ہو،اور وہاں کسی ناجائز امرکاارتکاب نہ ہو، مثلاً: عورتوں کے سر کے بال کاٹنا ، بھنویں بنوانا وغیرہ۔ تومسجد کی دوکان انہیں کرایہ پر دینااور کرایہ لینا درست ہوگا۔
اور اگرگمانِ غالب یہ ہو کہ بیوٹی پارلرکی دوکان میں شرعی حدود کا لحاظ نہیں رکھاجائے گا تو انہیں یہ دوکان کرایہ پر نہ دی جائے، غیر شرعی امور کے ارتکاب کی صورت میں کرایہ لینا درست نہیں ہوگا۔فقط اللہ اعلم
فتوی نمبر : 143907200077
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن