بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وقت داخل ہونے سے پہلے عشاء پڑھنا


سوال

میری چار سالوں سے سالانہ چلے کی تشکیل بٹ خیلہ سے آگے ہو رہی ہے، یہاں بٹ خیلہ سے آگے تقریباً پورا ضلع سوات، ضلع دیر بالا پائیں، ضلع باجوڑ، ضلع بونیر اور ضلع شانگلہ میں عشاء کی نماز ۹ بجے پڑھی جاتی ہے، جب کہ ۲۰۱۵ میں نقشے کے حساب سے عشاء کا وقت  ۹:۲۰  پر داخل ہوتا تھا، اسی طرح ۲۰۱۶  اور ۲۰۱۷  میں اور اس سال بھی ۹  بجے ہی نماز پڑھتے  ہیں، بعض جگہ تو پونے نو (۸:۴۵ ) پر بھی پڑھتے ہیں جب کہ وقت ۸:۵۰  پر داخل ہوتا ہے اور اذان ۸:۳۰ پر دی جاتی ہے، اور اس میں عوام اور خواص کے ساتھ مفتی صاحبان بھی شامل ہیں ، ہم نے یہاں کے علماء سے رابطہ کیا، لیکن کچھ تسلی بخش جواب نہیں ملا، آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کی تحقیق کر کے بتادیں کہ آیا وقت داخل ہونے سے پہلے اذان دینے یا نماز پڑھنے کی کوئی گنجائش ہے ؟

جواب

نماز کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ اس نماز کا وقت داخل ہوچکا ہو، پھر جو نماز وقت کے اندر پڑھی گئی وہ تو ادا ہوئی، اور جو وقت نکلنے کے بعد پڑھی گئی وہ قضا ہوئی، اور جو وقت سے پہلے پڑھی گئی وہ نہ ادا ہوئی نہ قضا، بلکہ سرے سے نماز ہوئی ہی نہیں۔

 اگر نماز وقت کے داخل ہونے کے بعد پڑھی ہو، لیکن اذان وقت داخل ہونے سے پہلے دی گئی ہو تو اس صورت میں نماز تو ہو جائے گی، البتہ اذان نماز کے وقت سے پہلے کہنا درست نہیں ، وقت آنے کے بعد اعادہ ضروری ہے ، اذان سنت مؤکدہ اور دین کا شعار ہے ، اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ وقت سے پہلے اذان دینے کی صورت میں مستقل طورپر شعارِ دین کا ترک لازم آئے گا۔  ’’فتح الباری‘‘ میں ہے ۔

'' إن الأذان شعار الإسلام وأنه لا یجوز ترکه''۔

یعنی: بے شک اذان اسلامی شعار ہے ، اس کو چھوڑنا جائز نہیں (ص۶۱ج۲)

’’فتح القدیر‘‘ میں ہے :

"لأن الأذان من أعلام الدین"۔

یعنی : اذان دین کی علامت ہے ۔(ص۹۳ج۲باب الأذان تحت قوله: الأذان سنة)    

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 121)

"(ومنها) الوقت؛ لأن الوقت كما هو سبب لوجوب الصلاة فهو شرط لأدائها، قال الله تعالى: ﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَاباًمَّوْقُوْتاً﴾ [النساء: 103] ، أي فرضاً مؤقتاً، حتى لا يجوز أداء الفرض قبل وقته إلا صلاة العصر يوم عرفة على ما يذكر".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908201129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں