بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وحی کی اقسام اور انبیاء علیہم السلام کااجتہاد


سوال

کل میں ایک عالم کابیان سن رہاتھاتوانہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا ہوا ہرلفظ وحی نہیں تھا بلکہ قرآن اوراحکامات کے معاملہ  میں انہوں نے جو بتایاوہ وحی تھا،اورعام زندگی میں ان کاقول وحی کے حکم میں نہیں ہے،اوراس میں غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں،اورانہوں نے کہاکہ یہ بات احادیث سے ثابت ہے۔ یہ بات میں نے پہلے نہیں سنی،کیایہ صحیح ہے؟انہوں نے کہاکہ جو آیت میں آیاہے کہ ''یہ نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتاصرف وہی کہتے ہیں جووحی کرتے ہیں  اس کایہی مطلب ہے۔

جواب

وحی کی کئی اقسام ہیں ،جن میں قرآن واحادیث مقدسہ شامل ہیں،ان کے علاوہ زندگی کے دیگرمعاملات میں حسب عادت بشری کاروباردنیاویہ وغیرہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادات صادرفرماتے تھے،جن کاتعلق دینیات ،تفسیرکلام اللہ اورتبلیغ عن اللہ سے نہیں تھا،ان میں اجتہادی خطا کاامکان توتھا مگرانبیاء علیہم السلام چونکہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے فوراً ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح کردی جاتی ہے،انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اجتہادی خطاپرقائم نہیں رہتے۔اس سلسلہ میں سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے جوانہوں نے معارف القرآن ،سورہ نجم کی تفسیرمیں لکھی ہے:

''یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے باتیں بناکراللہ کی طرف منسوب کریں اس کاقطعاً کوئی امکان نہیں،بلکہ آپ جوکچھ فرماتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کیاہواہوتاہے،وحی کی بہت سی اقسام احادیث بخاری سے ثابت ہیں،ان میں ایک قسم وہ ہے جس کے معنی اورالفاظ سب حق تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں،جس کانام قرآن ہے،دوسری وہ کہ صرف معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی کواپنے الفاظ میں ادافرماتے ہیں ،اس کانام حدیث اورسنت ہے،پھرحدیث میں جومضمون حق تعالیٰ کی طرف سے آتاہے کبھی وہ کسی معاملہ کاصاف اورواضح فیصلہ اورحکم ہوتاہے ،کبھی کوئی قاعدہ کلیہ بتلایاجاتاہے،جس سے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اجتہادسے نکالتے اوربیان کرتے ہیں،اس اجتہادمیں اس کاامکان رہتاہے کہ کوئی غلطی ہوجائے ۔مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورتمام انبیاء کی یہ خصوصیت ہے کہ جواحکام وہ اپنے اجتہادسے بیان فرماتے ہیں ان میں اگرکوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی جاتی ہے ،وہ اپنے غلط اجتہادپرقائم نہیں رہ سکتے۔بخلاف دوسرے علماء ومجتہدین کے کہ ان سے اجتہادمیں خطاہوجائے تو وہ اس پرقائم رہ سکتے ہیں اوران کی یہ خطابھی عنداللہ صرف معاف ہی نہیں بلکہ دین کے سمجھنے میں جواپنی پوری توانائی وہ خرچ کرتے ہیں اس پربھی ان کوایک ثواب ملتاہے۔

(معارف القرآن ،8/195،ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143703200018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں