بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وجوبِ زکاۃ کی ایک صورت کا حکم


سوال

 میرے پاس 1 جنوری کو 25000 ہزار روپے ہیں جو میری ماہانہ تن خواہ ہے اور یہ 25000 روپے ماہانہ راشن میں یقینی طور پر خرچ ہونے والے ہیں ۔ میں اپنے گھر کا راشن ہر مہینہ 5 تاریخ کو خریدتا ہوں، لیکن ابھی پہلی تاریخ کو میں نے راشن نہیں خریدا، اب ایسی صورت میں کیا میں ان پانچ دنوں تک صاحبِ نصاب کہلاؤں گا؟ اور اس دوران اگر کوئی مجھے زکاۃ دینا چاہے تو میرے لیے زکاۃ کا لینا جائز ہے یا نہیں؟ اور نیز اس ماہ جنوری میں 25000 ہزار میں سے 1000 روپے میرے پاس بچ گئے جو پورا سال بچے رہے اور پھر اگلے سال 1 جنوری کو مجھے 25000 روپے تنخواہ ملی ۔ یعنی سال کے شروع اور آخر میں نصاب مکمل ہے اور درمیان سال 1000 روپے ہمیشہ باقی رہے ۔تو کیا اگلے سال 1 جنوری کو مجھے اپنی تنخواہ اور ایک ہزار یعنی کل 26000 روپے کی زکاۃ نکالنا واجب ہے ؟ حال آں  کہ اس ۲۶۰۰۰ ہزار میں سے بھی ہر ماہ کی طرح ۲۵۰۰۰ ہزار روپے ماہانہ راشن میں یقیناً خرچ ہونے والے ہیں؟ یا پھر زکات کے واجب ہونے کے لیے بچت کا نصاب کے برابر ہونا ضروری ہے ؟

برائے مہربانی با حوالہ جواب عنایت فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ زکاۃ کا مستحق وہ شخص ہے جس کے پاس حاجتِ اصلیہ سے زائد اتنا مال (سونا،  چاندی، کیش، مال تجارت اور ضرورت سے زائد  سامان، برتن وغیرہ) نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو ، ایسا شخص زکاۃ وصول کر سکتا ہے۔

مذکورہ ضابطہ کی روشنی میں حاجتِ اصلیہ کے علاوہ اگر آپ کے پاس مذکورہ بالا اشیاء ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ نہیں ہیں تو یکم جنوری کو  محض 25000 روپے کا مالک بننے سے آپ صاحبِ نصاب نہیں بنیں گے؛ کیوں کہ مذکورہ رقم چاندی کے موجودہ ریٹ کے اعتبار سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو نہیں پہنچتی؛  لہذا آپ زکاۃ وصول کر سکیں گے۔

اور اگر مذکورہ رقم کے علاوہ آپ کی ملکیت میں ضرورت سے زائد ایسی اشیاء موجود ہیں جن کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو آپ زکاۃ وصول نہیں کر سکیں گے۔

نیز واضح رہے کہ زکاۃ ایسے شخص پر لازم ہوتی ہے جس کی ملکیت میں سونا، چاندی، کیش یا مالِ تجارت (یا ان سب کا مجموعہ یا ان میں سے بعض کا مجموعہ) ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر موجود ہو، اور یہ مقدار سال کے شروع اور آخر میں موجود ہونے سے آدمی صاحبِ نصاب شمار ہو جاتا ہے، اگر چہ سال کے درمیان میں وہ کم ہو جائے، لیکن اگر سال کے درمیان میں کوئی ایسا وقت آ جائے کہ ملکیت میں کوئی بھی چیز باقی نہ رہے تو ایسی صورت میں زکاۃ  کا سال از سرِ نو شروع ہو گا۔

اس ضابطے کی روشنی میں جب آپ 25000 کے مالک بنے تو یہ رقم چوں کہ چاندی کے ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار کو نہیں پہنچتی، اس لیے محض اس رقم سے آپ صاحبِ نصاب نہیں بنے؛ لہذا اس رقم پر سال گزرنے کے بعد زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہو گی۔

ہاں! اگر آپ کی ملکیت میں سونا، چاندی، کیش یا مالِ تجارت بھی ہو کہ جس کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت  تک پہنچ جائے تو اس نصاب پر سال گزرنے کے بعد آپ پر زکاۃ  ادا کرنا لازم ہوگا خواہ سال کے درمیان میں نصاب کم کیوں نہ ہو گیا ہو، کیوں کہ زکاۃ لازم ہونے کے لیے بچت کا نصاب کے برابر ہونا ضروری نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 302):
"(وشرط كمال النصاب) ولو سائمةً (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد، وفي الانتهاء للوجوب، (فلايضر نقصانه بينهما)، فلو هلك كله بطل الحول".

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ سال کے درمیان میں اگر بچت نصاب سے کم بھی ہو تو بھی وجوبِ زکاۃ  کے لیے مانع نہیں ہے، اور جب سال کے آخر میں نصاب مکمل ہو گا تو زکاۃ لازم ہو گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں