ایک لڑکی اور لڑکا دونوں نے کورٹ میں نکاح کیا ہے، ابھی دونوں کے بچے ہیں ۔لیکن ان دونوں کی فیملی میں رشتہ داری ختم ہوگئی ہے، اس واقعے کے بعد، کیا نکاح اور ان کا یہ عمل ٹھیک ہے؟ لڑکی اپنے والدین کی ناراضی کی وجہ سے گناہ گار ہے؟ اس لڑکی کو کفارہ کےلیے کیا کرنا چاہیے؟
مذکورہ لڑکا اور لڑکی نکاح کے وقت اگر بالغ تھے اور دو گواہوں کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا تو مذکورہ نکاح شرعاً منعقد ہو چکا، والدین کی رضامندی کے بغیر یوں چھپ کر نکاح کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسلامی معاشرتی احکام اور آداب کی روشنی میں والدین اولاد کے لیے فیصلہ کرتے ہیں، یا اولاد والدین کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرتے ہیں، بہر حال ان معاملات میں سرپرستی بزرگوں کی ہونی چاہیے۔ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا بہت ہی ناپسندیدہ ہے، تاہم نکاح شرعاً منعقد ہوچکاہے، اور اولاد بھی ہوگئی ہے؛ اب حکم یہ ہے کہ والدین کو منانے اور اور ان کوراضٰی کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200220
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن