بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کے انتقال کی صورت میں بچے کی پرورش کا حق دار / میکہ سے ملنے والے اور بری کے زیورات کا حکم


سوال

 میری بیٹی کا چار ماہ پہلے ایک حادثہ میں انتقال ہوگیاتھا، اس کاایک بیٹا ہے جس کی عمر اس وقت تین سال تھی،  وہ بچہ اس وقت سے میرے پاس رہ رہا تھا، یہ فیصلہ میرے داماد کا تھا،  ہر اتوار کو میرے داماد بچے کو لے جاتے اور رات کو چھوڑ جاتے،  جنوری کی تیس تاریخ کو میرے داماد میرے نواسے کو لے گئے اس کے بعد سے وہ بچہ وہیں رہ رہا ہے،  وہ بچہ بہت چھوٹا ہے،  وہاں اس کی صحت، پرورش اور تربیت کی کوئی امید نہیں ہے۔

میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اس طرح کے معاملے میں کیا میں بچے کو اپنے پاس رکھ سکتی ہوں؟ حالات کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ بچہ پیدائش سے لے کر اب تک ہم سے ہی مانوس رہاہے،  دادا نے پیدائش کے وقت بچے کے کان میں اذان دینے کے وقت سے ہی اس کو ڈس اون(اظہارِ لاتعلقی) کردیا تھا۔ بچے کی بہتر پرورش، تعلیم و تربیت کی خاطر میں اس کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں۔

دوم یہ کہ میری بیٹی کی شادی پہ جو جہیز اور سونا میں نے اس کو دیااور جو کپڑے اور سونا اس کے سسرال والوں نے اس کو دیا اس کے بارے میں دین میں کیا احکام ہیں؟

جواب

1۔۔ صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیٹی کے انتقال ہونے کی صورت میں اس کے تین سالہ بیٹے کیعمر جب تک سات سال نہیں ہوجاتی شرعاً اس کی پرورش کا حق بچے کی نانی (یعنی آپ ) کو ہے، اور بچے کی عمر سات سال ہوجانے کی بعد اس کی تربیت کا حق دار اس کا والد ہوگا۔لہذا  آپ کا اپنے تین سالہ نواسے کو ابھی اپنی پرورش میں رکھنے کا  مطالبہ درست ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير".(1/541، الباب السادس عشر فی الحضانۃ، ط: رشیدیہ)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"فأحق النساء من ذوات الرحم المحرم بالحضانة الأم؛ لأنه لا أقرب منها ثم أم الأم ثم أم الأب؛ لأن الجدتين وإن استويتا في القرب لكن إحداهما من قبل الأم أولى".(4 / 41، فصل فی بیان من لہ الحضانۃ، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى؛ لأنه الغالب". (3/566، باب الحضانۃ، ط: سعید)

2۔۔  نکاح  کے موقع پر لڑکی کو جو میکہ والوں اور سسرال والوں کی طرف سے سامان ، کپڑے اور زیور  وغیرہ ملتا ہے اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

جو سامان جہیز،کپڑے،اور زیور وغیرہ  لڑکی کو میکہ والوں کی طرف سے ملتا ہے وہ لڑکی کی ملکیت  شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح  لڑکے والوں کی طرف سے جو عام  استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ لڑکی کو  دیے جاتے ہیں ، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی جائے، اور لڑکی مہر  یہ سب  بھی لڑکی  ہی کی ملکیت ہے۔

اور  لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

مذکورہ تفصیل کے مطابق جو چیزیں آپ کی مرحومہ بیٹی کی ملکیت ہوں گی اب وہ اس کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ شمار ہوں گی جو اس کے تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصص کے تناسب سے تقسیم ہوں گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".  (3/158، باب المہر، ط؛سعید)        

       وفیہ أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً". (3/ 153،  کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت". (3/157، باب المہر، ط: سعید)        

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية". (1 / 327، الفصل السادس عشر فی جہاز البنت، ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں