بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی نافرمانی اور ان کو گالیاں دینا


سوال

 دو بہنیں اپنی سگی ماں کو گالیاں دیتی ہیں،  بحث و تکرار کرتی ہیں،  اپنی ماں کو عورت سے مخاطب کرتی ہے،  صرف اس بنیاد پر کہ اس کی ماں بڑی بیٹی پر زیادہ شفقت کا برتاؤ کرتی ہے تو ان دو بہنوں کا خیال یہ ہے کہ وہ ماں ماں کہلانے کی مستحق ہی نہیں کہ وہ سب بیٹیوں کے ساتھ ایک جیسابرتاؤ نہیں کرتی، ہم دو بہنوں پر ظلم کرتی ہے، لہٰذا ہمارے  لیے اب ماں کی نافرمانی جائز ہے، ہم ماں کو گالیاں بھی دے سکتی ہیں،  بحث ومباحثہ بھی کر سکتی ہیں،  مزید برآں وہ یہ گمان کر رہی ہیں  کہ ہم جو کچھ بھی کررہی ہیں وہ حق ہے، سچ ہے، انصاف ہے، اور ماں کھلی ہوئی گم راہی میں ہے، اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب انہیں کوئی سمجھاتا ہے کہ ماں کے بھی کچھ حقوق ہیں، ان کے ساتھ ایسا برتاؤ  نہ کرو تو ایک بہن کہتی ہے کہ میں یہ سب کچھ اپنی ماں کو جہنم سے بچانے کے لیے  کر رہی ہوں، ان دو بیٹیوں سے ماں بہت بے زار  ہو چکی ہے اور ان کے حق میں کثرت سے بد دعائیں بھی دے رہی ہے، کیا اللہ تعالی نے بیٹی کو ایسا حق دیا ہے کہ وہ ماں کی اصلاح اس طریقہ کار سے کرے؟ براہِ کرم قرآن وسنت کے روشنی میں اپنا موقف واضح کریں  کہ کون حقیقی گم راہی میں مبتلا ہے؟  اور ماں کی نافرمانی کے نقصانات بھی براہِ کرم واضح کریں!

جواب

اولاد  پر ان تمام امور میں والدین کی اطاعت فرض ہے جن کی اطاعت میں شریعت کے کسی حکم سے ٹکراؤ لازم نہ آئے، نیز والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا بھی شرعاً ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا  رسانی  سخت حرام اورکبیرہ گناہ  ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ  میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  اور والدین کی نافرمانی،  ان کے ساتھ   بدکلامی  کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی  ہیں۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]

         ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)

         ایک حدیث میں ہے:

1- "عن عبدالله بن عمرو قال: قال رسول الله ﷺ : من الکبائر شتم الرجل والدیه، قالوا: یارسول الله وهل یشتم الرجل والدیه، قال: نعم، یسب أبا الرجل فیسب أباه ویسب أمه فیسب أمه. متفق علیه". (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الاول)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! آدمی کسی دوسرے کے والد کو گالی دیتاہے تو وہ بھی اس کے والد کو گالی دیتاہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتاہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے۔ (بخاری ومسلم)

ملاحظہ کیجیے کہ دوسرے کے والدین کو گالی دینا جو اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب ہے اسے کبیرہ گناہ قرار دیا جارہاہے، پھر براہِ راست اپنے والدین کو خود گالی دینا کتنا بڑا گناہ ہوگا!! اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حیرت سے سوال کیا کہ کیا کوئی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟

2- "عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان". (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

دیکھ لیجیے رسول اللہ ﷺ نے کیا تعلیم ارشاد فرمائی؟ والدین خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں، اولاد کا کام ان کا احتساب یا اصلاح نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں بھی اولاد کا فرض ان کی اطاعت ہے، والدین سے ان کا رب خود حساب لے لے گا، لیکن اس صورت میں اولاد نافرمانی کرے گی تو وہ اللہ کے ہاں غضب کی مستحق ہوگی، اور اس کے لیے جہنم کا دروازہ کھل جائے گا۔

3- "عن أبي الدرداء أن رجلاً أتاه فقال: إن لي امراة وإن أمي تأمرني بطلاقها فقال له أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول: الوالد أوسط أبواب الجنة فإن شئت فحافظ علی الباب أو ضیع. رواه الترمذي وابن ماجه". (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثانی)

 

ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: میرے والدہ مجھے میری بیوی کو طلاق دینے کا کہہ رہی ہیں، تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے، پس تمہاری مرضی ہے، چاہو تو اس دروازے کی حفاظت کرو یا اسے ضائع کردو۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

یعنی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے وضاحت سے یہ تو نہیں فرمایا کہ والدہ کے کہنے پر فوراً طلاق دے دو، لیکن دین کا مزاج اور رسول اللہ ﷺ کی پسند بتادی کہ والدین کا حق بہت بڑا ہے، حتی الامکان انہیں راضی کرنے کی کوشش کرو۔

4- " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»". (مشکوٰۃ،  ج ؛ 2 ،ص؛ 421، باب البر والصلۃ، قدیمی)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے)          (مظاہرِ حق ، 4/486، ط قدیمی)

5- "وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»". (مشکاۃ المصابیح ،  2/421 ،باب البر والصلۃ، قدیمی)

         ترجمہ: رسول کریمﷺ نے فرمایا ؛ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے۔(مظاہرِ حق ، 4/487، ط قدیمی)

 سوال میں مذکورہ بیٹیوں کا  اپنی ماں کے  ساتھ رویہ اور سلوک سے متعلق جو کچھ لکھا ہے، اگر یہ واقعے کے مطابق ہے تو  یقیناً  بیٹیوں کا یہ رویہ   اور سلوک ناجائز  اور کبیرہ گناہ ہے،  جس کا خمیازہ آخرت کے علاوہ دنیا میں  بھی بھگتنا پڑتا ہے، بلاشبہ یہ دونوں لڑکیاں شیطان کے مکرو فریب کا شکار ہوگئی ہیں، ان پر لازم ہے کہ  اپنے اس رویہ سے توبہ کریں، والدین  کی خدمت کریں،ان کے بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں ، جیساکہ بچپن میں وہ ان کا سہارا بنے تھے، اور مشقتیں اٹھا کر ان کو پالا تھا، اور ان کی زندگی کو اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھیں۔

باقی  گالی تو کسی عام مسلمان کو دینا بھی گناہ اور ناجائز ہے چہ جائے کہ ماں جیسی ہستی کو گالی دی جائے، یہ انتہائی بدبختی اور شقاوت ہے، مذکورہ دونوں لڑکیوں پر لازم ہے اپنے اس عمل پر اللہ سے بھی اور اپنی والدہ سے بھی معافی مانگیں، ورنہ کہیں آخرت بلکہ آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں