بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی طرف سے رمی کرنا


سوال

میری والدہ معذور ہیں، وہ رمی نہیں کر سکتیں، کیا میں ان کی طرف سے رمی کر سکتی ہوں؟  اگر کر سکتی ہوں تو ترتیب کیا ہو گی؟  کیا پہلے اپنی رمی مکمل کرنی ہے، اس کے بعد ان کی طرف سے کروں یا پھر ایک ساتھ  چودہ چودہ کنکریا ں مارتی جاؤں؟

جواب

مرد ، عورت ، ضعیف اور مریض سب کا بہ ذات خود رمی کرنا ضروری ہے، بلاعذر دوسرے کو نائب بنانا جائز نہیں ہے ۔ ہاں عذر شرعی کی وجہ سے نائب بنانا جائز ہے ، مثلاً : آدمی اتنا بیمار ہو کہ بیٹھ کر نماز پڑھنا اس کے لیے جائز ہو ، یا مرض کی وجہ سے جمرہ تک پہنچنے میں شدید تکلیف ہو اور مرض بڑھ جانے کا قوی اندیشہ ہو ، یا پیدل چلنے کی استطاعت نہ ہو اور سواری بھی میسر نہ ہو ، تو ایسا شخص رمی میں دوسرے کو نائب بنا سکتا ہے ۔
نائب کے لیے رمی کا طریقہ یہ ہے کہ : پہلے خود اپنی طرف سے سات کنکریاں مارے،   اس کے بعد معذور کی طرف سے سات کنکریاں مارے ۔  یہ ضروری نہیں کہ پہلے اپنی طرف سے تینوں جمرات کی رمی مکمل کرے، پھر دوبارہ لوٹ کر آئے اور موکل کی طرف سے تینوں جمرات کی رمی کرے۔ البتہ اس طرح رمی کرنا کہ پہلے اپنی طرف سے ایک کنکری پھینکے ، پھر معذور کی طرف سے ایک کنکری پھینکے ، یہ مکروہ ہے ۔

(غنیة الناسك،ص:۲۴۳، فصل في شرائط الرمي)

'' السادس: أن یرمي بنفسه، فلا تجوز النیابة فیه عند القدرة. و الرجل و المرأة في الرمي سواء، إلا أن رمیها في اللیل أفضل، فلاتجوز النیابة عن المرأة بغیر عذر. وتجوز عند العذر، فلو رمی عن مریض بأمره أو مغمی علیه و لو بغیر أمره أو صبي أو معتوه أو مجنون جاز. والأولی أن یرمي السبعة أولاً عن نفسه، ثم عن غیره. و لو رمی بحصاتین إحداهما عن نفسه والأخری من غیره جاز، ویکره''.فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201701

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں