بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی زندگی میں انتقال کرنے والے بیٹوں کا میراث میں حصہ، پوتوں کی میراث


سوال

ہماری دادی کا انتقال ہوا ہے ان کے 3 بیٹے ہیں،  2 کا ان کی زندگی میں انتقال ہوا ہے اور ایک حیات ہے۔ایک بیٹا جن کا انتقال ہوا ہے ان کے 3 بیٹے اور 5 بیٹیاں ہے اور دوسرے بیٹے جن کا انتقال ہوا ہےان کی  2 بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں، اور جو حیات ہیں ان کے 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہے۔اب سوال یہ ہے  کہ ہماری دادی کی میراث کی تقسیم کیسے ہو گی؟

جواب

اگر  آپ کی دادی کے صرف یہی تین بیٹے تھے، اور کوئی اولاد نہیں تھی  اور ان کے شوہر  (آپ کے دادا) اور  والدین بھی حیات نہیں، بلکہ ان کا انتقال دادی کی زندگی ہی میں ہوگیا ہے  تو ایسی صورت میں آپ کی  مرحومہ دادی کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے مرحومہ کے ترکہ میں اس کے حقوق متقدمہ یعنی تجیہز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، مرحومہ کے ذمہ اگر کوئی قرض ہے تو اسے کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد ، مرحومہ نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ مرحومہ کے زندہ بیٹے کو ملے گا، اور جن دو بیٹوں کا انتقال مرحومہ کی زندگی میں ہوگیا ہے، چوں کہ وہ مرحومہ کےانتقال کے وقت   حیات نہیں تھے اس لیے وہ  اپنی والدہ کے ترکہ حق دار نہیں بنے ، لہذا ان کی اولاد کا اپنی دادی کے ترکہ میں کوئی حق وحصہ نہیں ہے، البتہ اگر مرحومہ کا حیات بیٹا اپنی رضا وخوشی سے اپنے بھائیوں کی اولاد کو کچھ دے دے تو یہ اس کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

''صحیح بخاری'' میں ہے:

''وقال زيد: «ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن»''۔

(8/ 151،باب میراث ابن الابن، ط: دار طوق النجاہ)

''البحر الرائق  '' میں ہے:

''وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث، فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث''۔ (9/346 ، کتاب الفرائض، ط:رشیدیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں