ایک نوجوان کی عمر ۲۸ سال ہوچکی ہے اور وہ نکاح کا خواہش مند ہے مزید یہ کہ وہ رشتہ داری میں ہی دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی سےنکاح کرنے کا خواہش مند ہے نیز ان میں سے ایک کی جانب زیادہ جھکاؤ بھی ہے، مگر اس کی والدہ اس بات کے لیے راضی نہیں ہیں، اور وہ رشتہ داری سے باہر کرانا چاہتی ہیں جب کہ گھریلو حالات کی وجہ سے رشتہ داری سے باہر شادی کرنا ابھی تقریباً دو سال تک ممکن نہیں ہے تو ان حالات میں اس نوجوان کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا والدہ کے کہنے کے بموجب ڈیڑھ دو سال تک انتظار کرے یا ان کی رضامندی کے بغیر والد کی رضامندی سے نکاح کرلے؟ قابلِ ذکر یہ ہے کہ لڑکے کے والد تیار ہیں؟
بہتر صورت یہ ہے کہ والدہ کو راضی کر کے ان کی رضامندی سے نکاح کیا جائے، اس سلسلے میں مذکورہ شخص کے والد کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ باقی اگر سائل کی کیفیت ایسی ہو کہ فوری نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں مبتلاہونے کا اندیشہ ہو اور والدہ جس جگہ نکاح کی خواہش مند ہیں وہاں فوری نکاح نہیں ہوسکتا تو اس کےلیے والدہ کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینے کی اجازت ہوگی، لیکن محض اپنی نفسانی خواہش کے خاطر والدہ کو ناراض کرنا گھاٹے کا سودا ہے، نہ کریں۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200213
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن