بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ مرحومہ کے کپڑے تقسیم سے پہلے بیٹیوں کا لے لینا


سوال

میری امی کا تقریباً ایک ماہ پہلے انتقال ہوا ہے, ہم تین بہنیں ہیں، اور ہم تینوں نے ان کے کپڑے آپس میں بانٹ لیے ہیں کہ ہم انہیں پہن کر نماز پڑہیں گے تو امی کو بھی اس کا اجر ملے گا, اب چھوٹی بہن نے خواب میں دیکھا کہ امی اس پر ناراض ہیں کہ تم نے کپڑے کیوں لیے؟ جب کہ زندگی میں ہم کو  اپنی چیزیں دے کر خوش ہوتی تھیں۔ کیا ہم امی کے  کپڑے کسی اور کو دے دیں؟ کیوں کہ کسی سے سنا ہے کہ مردے کی چیزیں گھر والے استعمال نہیں کرتے۔

جواب

انسان کی وفات کے ساتھ ہی اس کی تمام مملوکہ اشیاء خواہ سونا چاندی، نقدی، کپڑے چپل وغیرہ سب اس کا ترکہ شمار ہوتا ہے، جس میں اس کے تمام شرعی ورثاء حصصِ شرعیہ کے بقدر  شریک ہوتے ہیں،  یہی حکم آپ کی والدہ کی تمام مملوکہ اشیاء (بشمول کپڑوں) کا بھی ہے کہ وہ ان کا ترکہ شمار ہوں گی، آپ حضرات نے چوں کہ تقسیمِ شرعی کے لحاظ سے ان کے کپڑے نہیں لیے ہیں،  اور معلوم ہوتاہے کہ اس تقسیم میں تمام ورثاء کی دلی رضامندی بھی شامل نہیں ہے؛ اس لیے آپ سب پر لازم ہے  کہ ان تمام کپڑوں کو ان کے ترکہ میں شامل کرکے شرعی حصص کے مطابق تقسیم کریں۔ مرحومہ کے ورثاء کی تفصیل بتاکر شرعی حصص معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ 

 رہی بات محروم کے زیرِ استعمال سامان کے استعمال کی تو  ان تمام اشیاء پر ان کے ورثاء کا ہی حق ہوتا ہے، اور تقسیمِ شرعی کے بعد ان کا استعمال بھی جائز ہوتا ہے۔ آپ نے جو بات سنی ہے کہ مردے کی چیزیں گھر والے استعمال نہیں کرسکتے، یہ غلط ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں